کلام
طاہر ایڈیشن 2004صفحہ55۔57
20۔ یہ دل نے کس کو یاد کیا
یہ دل نے کس کو یاد کیا ، سپنوں میں
یہ کون آیا ہے
جس سے سپنے جاگ اُٹھے ہیں خوابوں نے
نور کمایا ہے
گل بوٹوں ، کلیوں ، پتوں سے ، کانٹوں
سے خوشبو آنے لگی
اک عنبربار تصور نے یادوں کا چمن مہکایا
ہے
گل رنگ شفق کے پیراہن میں قوسِ قزح
کی پینگوں پر
اِک یاد کو جھولے دے دے کر پگلے نے
دل بہلایا ہے
دیکھیں تو سہی دن کیسے کیسے حسن کے
روپ میں ڈھلتا ہے
بدلی نے شفق کے چہرے پر کالا گیسو لہرایا
ہے
جس رُخ دیکھیں ہر من موہن تیرا مکھڑا
ہی تکتا ہے
ہر اک محسن نے تیرے حسن کا ہی اِحسان
اٹھایا ہے
مرے دل کے اُفق پر لاکھوں چاند ستارے
روشن ہیں لیکن
جو ڈُوب چکے ہیں اُن کی یادوں نے منظر
دُھندلایا ہے
جب مالی داغ جدائی دے مرجھا جاتے ہیں
گل بوٹے
دیکھیں فرقت نے کیسے پھول سے چہروں
کو کملایا ہے
یہ کون ستارہ ٹوٹا جس سے سب تارے بے
نور ہوئے
کس چندرما نے ڈُوب کے اِتنے چاندوں
کو گہنایا ہے
کیا جلتا ہے کہ چمنیوں سے اُٹھتا ہے
دُھواں آہوں کی طرح
اک دَرد بہ داماں سرمئی رُت نے سارا
اُفق کجلایا ہے
کوئی احمدیوں کے اِمام سے بڑھ کر کیا
دنیا میں غنی ہو گا
ہیں سچے دل اس کی دولت ، اِخلاص اس
کا سرمایا ہے
اے دشمن دیں! ترا رزق فقط تکذیب کے
تھوہر کا پھل ہے
شیطان نے تجھے صحراؤں میں اِک باغ سبز
دکھایا ہے
میں ہفت اَفلاک کا پنچھی ہوں ، مرا
نور نظر آکاشی ہے
تو اوندھے منہ چلنے والا اِک بے مرشد
چوپایہ ہے
سچے ساتھی بانٹ کے دُکھ مرا تن من دھن
اَپنا بیٹھے
سکھ کے ساتھی تھے ہی پرائے کون گیا
کون آیا ہے
غفلت میں عمر کی رات کٹی ، دل میلا
، بال سفید ہوئے
اُٹھ چلنے کی تیاری کر ، سورج سر پر
چڑھ آیا ہے
جلسہ سالانہ یو کے ١٩٩٠ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں