صفحات

جمعہ، 1 اپریل، 2016

21۔ کون پیا تھا؟ کون پریمی؟

کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ58۔59

21۔ کون پیا تھا؟ کون پریمی؟


اُن کو شکوہ ہے کہ ہجر میں کیوں تڑپایا ساری رات
جن کی خاطر رات لٹا دی ، چین نہ پایا ساری رات

اُن کے اندیشوں میں دل نے کیسے کیسے گھبرا کر
سینے کے دیوار و در سے ، سر ٹکرایا ساری رات

خوب سجی یادوں کی محفل ، مہمانوں نے تاپے ہاتھ
ہم نے اپنا کوئلہ کوئلہ، دل دہکایا ساری رات

اُن سے شکوہ کیسا جن کی یاد نے بیٹھ کے پہلو میں
ساری رات آنکھوں میں کاٹی ، درد بٹایا ساری رات

اُن سے شکایت کس منہ سے ہو جن کے ہوں اِحسان بہت
جن کی کومل یاد نے دُکھتا دل سہلایا ساری رات

گرد آلود تھا پتہ پتہ ، کلی کلی کجلائی ہوئی
ٹوٹ کے یادیں برسیں ، ہر بوٹا نہلایا ساری رات

روتے روتے سینے پر سر رکھ کر سو گئی ان کی یاد
کون پیا تھا؟ کون پریمی؟ بھید نہ پایا ساری رات

وہ یاد آئے جن کے آنسو تھے غم کی خاموش کتھا
میرے سامنے بیٹھ کے روئے ، دکھ نہ بتایا ساری رات

وہ یاد آئے جن کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہ تھا
سوجے نین دکھائے اپنے اور رُلایا ساری رات

بچے بھوکے گریاں ترساں ، دیپک کی لو لرزاں لرزاں
کٹیا میں اِفلاس کے بھوت کا ناچا سایا ساری رات

اَوروں کے دکھ درد میں تو کیوں ناحق جان گنواتا ہے
تجھ کو کیا ، کوئی بے شک تڑپے ،ماں کا جایا ساری رات

صبح صادق پر صدیقوں کا ایمان نہیں ڈولا
اندھی رات کے گھور اندھیروں نے بہکایا ساری رات

راتوں کو خدا سے پیار کی لو اور صبح بتوں سے یارانے
نادان گنوا بیٹھے دن کو جو یار کمایا ساری رات

جلسہ سالانہ یوکے ١٩٩٠ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں