صفحات

جمعہ، 8 اپریل، 2016

07۔ بندہ رحمن کا بن بندۂ شیطان نہ ہو

کلام ِبشیرایڈیشن 1963 صفحہ 11۔13

07۔ بندہ رحمن کا بن بندۂ شیطان نہ ہو


1920ء

ہائے وہ سر جو رِہ یار میں قربان نہ ہو
وائے وہ سینہ کہ جو عشق میں بریان نہ ہو

حیف اس روح پہ جو مستِ رُخ یار نہیں
تف ہے اس آنکھ پہ جو شوق میں گریان نہ ہو

دل یہ کہتا ہے اسی در پہ رما دے دُھونی
نفس کہتا ہے کہ اُٹھ مفت میں ہلکان نہ ہو

زندگی ہیچ ہے انسان کی دنیا میں اگر
سینہ میں قلب نہ ہو، قلب میں ایمان نہ ہو

آدمی وادئ ظلمت میں بھٹکتا مر جائے
راہنمائی کا اگر عرش سے سامان نہ ہو

ہاتھ گر کام میں ہو دل میں ہو رب ِارباب
کوئی مشکل نہیں دنیا میں کہ آسان نہ ہو

واعظا !شرم سے مر جانے کی جا ہے صد حیف
لب پہ قرآن ہو، پر سینہ میں قرآن نہ ہو

نخلِ ایمان پنپنے کا نہیں زاہد خشک
سینچنے کو اسے گر چشمۂ ایمان نہ ہو

چھوڑ کر راہِ خدا راہ ِبُتاں پر مت جا
عقل دی ہے تجھے اللہ نے نادان نہ ہو

نسلِ آدم ہے تُو ابلیس کے پیچھے مت چل
بندہ رحمن کا بن، بندۂ شیطان نہ ہو

رحم کر، ظلم نہ ڈھا، آہ ِغریباں سے ڈر
کام وہ کر، کہ جسے کر کے پشیمان نہ ہو

غیر ممکن ہے کٹے راہِ طریقت جب تک
جام ِاعمال نہ ہو بادۂِ ایمان نہ ہو

سر میں ہو جوش ِجنوں دل میں ہو عشقِ محبوب
خوفِ دوزخ نہ رہے خواہشِ رضوان نہ ہو

اب تو خواہش ہے وہاں جا کے لگائیں ڈیرا
دیکھنے کو بھی جہاں صورتِ انسان نہ ہو

دل میں اک آگ ہے اور سینہ مرا غم سے تپاں
وائے قسمت ،اگر اس درد کا درمان نہ ہو

ہوں گنہگار ولے ہُوں تو ترا ہی بندہ
مجھ سے ناراض ،ترے صدقے مری جان نہ ہو

یاس اک زہر ہے بچ اس سے بشیرؔ عاصی
فضل ہو جائے گا اللہ کا ،پریشان نہ ہو


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں