درعدن
ایڈیشن 2008صفحہ73۔78
37۔ غیر مطبوعہ اشعار
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اپنے
ایک خط میں تحریر فرماتی ہیں :
'' چند جستہ مزید دعائیہ اشعار
جو یاد تھے یاکوئی پرزہ وغیرہ مل گیا ارسال ہیں۔
(1)
ایک دعا جو 1941 ء میں طیبہ صدیقہ بیگم
مسعود احمد خان اپنے لڑکے کی بیوی کو کہہ کر دی تھی
میرے مولا کٹھن ہے راستہ اس زندگانی
کا
مرے ہر ہر قدم پر خود رہِ آسان پیدا
کر
تری نصرت سے ساری مشکلیں آسان ہو جائیں
ہزاروں رحمتیں ہوں فضل کے سامان پیدا
کر
جو تیرے عاشقِ صادق ہوں، فخرِ آلِ احمدؑہوں
الٰہی نسل سے میری تُو وہ انسان پیدا
کر
٭
اس وقت ان کا پہلا بچہ ہونے کو تھا۔مودود احمد خان سلمہ ،تعالیٰ
(2)
ایک پکار
کیا التجا کروں کہ مجسم دعا ہوں میں
سر تا بہ پا سوال ہوں سائل نہیں ہوں
میں
میری خطائیں سب ترے غفراں نے ڈھانپ
لیں
اب بھی نگاہِ لطف کے قابل نہیں ہوں
میں؟
وحشت مری نہیں ابھی ہم پایۂ جنوں
اہلِ خرد پہ بار ہوں عاقل نہیں ہوں
میں
میرا کوئی نہیں ہے ٹھکانا ترے سوا
تیرے سوا کسی کے بھی قابل نہیں ہوں
میں
مٹتی ہوئی خودی نے پکارا کہ اے خدا!
آجا کہ تیری راہ میں حائل نہیں ہوں
میں
یہ راگ دل کا راز ہے سن دردآشنا
کچھ ہمنوائے شورِ عنادل نہیں ہوں میں
(3)
دردِ دل
درد کہتا ہے بہا دو خونِ دل آنکھوں
سے تم
عقل کہتی ہے نہیں! آہ و فغاں بے سود
ہے
خوف ہے مجھ کو کہ لگ جائے نہ اشکوں
کی جھڑی
آج میرا مطلعِ دل پھر غبار آلود ہے
(4)
دعائیہ
مسعود احمد خان کو بچپن میں لکھ کر
دیا تھا
دو جہاں میں تجھ کو حاصل گوہرِ مقصود
ہو
اے مرے مسعود تیری عاقبت محمود ہو
آمین
(5)
الحمد للّہ
فرش سے عرش پہ پہنچی ہیں صدائیں میری
میرے اللہ نے سن لی ہیں دعائیں میری
(6)
1924ء کو خواب میں شعر آیا
مایوس و غم زدہ کوئی اس کے سوا نہیں
قبضے میں جس کے قبضۂ سیفِ خدا نہیں
''سیف خدا'' والا مصرع تو پورایا
د رہا اوپر کے مصرع کا مفہوم بھی یہی تھا۔ اسی وقت اس کو لکھ بھی لیا تھا۔ ٹھیک کر
کے بڑے ماموں جان مرحوم نے ''سیف خدا نہ ہو '' لکھا ہے مگر اصل اسی طرح تھا جس طرح
میں نے لکھا ہے۔( مبارکہ)
(7)
ایک شب کو دعا کے بعد خواب میں یہ مصرعہ
بآواز بلند سنائی دیا آنکھ کھلی تو حضرت اماں جان میرے قریب نماز میں مصروف تھیں ع
خیر ہی خیر رہے خیر کی راہیں کھل جائیں
اس پر مصرع لگایا گیا۔ شعر ہوا ؎
وہ کرم کر کہ عدو کی بھی نگاہیں کھل
جائیں
''خیر ہی خیر رہے خیر کی راہیں
کھل جائیں''
(8)
متفرق
اور کرشمہ قادرِ باری! قدرت کا دکھلا
دے
بنے بنائے ٹوٹ چکے اب ٹوٹے کام بناوے
الٰہی مشکلیں آسان کر دے
الٰہی فضل کے سامان کر دے
(9)
کسی عزیزلڑکی نے مصرع طرح غالب کا دے
کر چند اشعار کہلوائے تھے، وہ بھی پانچ چھ لکھے ہوئے مل گئے ہیں
پھر دکھا دے مجھے مولا میرا شاداں ہونا
صحنِ خانہ کا میرے رشکِ گلستاں ہونا
ان کے آتے ہی مرے غنچۂ دل کا کھلنا
اس خزاں کا مری صد فصلِ بہاراں ہونا
خِلقتِ اِنس میں ہے اُنس و محبت کا
خمیر
گر محبت نہیں بیکار ہے انساں ہونا
قابلِ رشک ہے اس خاک کے پتلے کا نصیب
جس کی قسمت میں ہو خاکِ درِ جاناں ہونا
رو کے کہتی ہے زمیں گر نہ سنے نامِ
خدا
''ایسی بستی سے تو بہتر ہے بیاباں
ہونا''
فعل دونوں ہی نہیں شیوۂِ مردِ مومن
رونا تقدیر کو، تدبیر پہ نازاں ہونا
للہ الحمد چلی رحمتِ باری کی نسیم
دیکھنا غنچۂ دل کا گلِ خنداں ہونا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں