صفحات

پیر، 4 اپریل، 2016

3۔ صَلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلِّم

کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ7۔10

صَلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلِّم


حضرت سید ولد آدم ، صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم
سب نبیوں میں افضل و اکرم ، صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم

نام محمدؐ ، کام مکرم ، صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم
ہادئ کامل ، رہبرِ اعظم ، صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم

آپؐ کے جلوہ حسن کے آگے ، شرم سے نوروں والے بھاگے
مہر و ماہ نے توڑ دیا دم ، صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم

اِک جلوے میں آناً فاناً بھر دیا عالم ، کر دئیے روشن
اُتر دکھن پورب پچھم ، صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم

اول و آخر ، شارع و خاتم
صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم

ختم ہوئے جب کل نبیوں کے دور نبوت کے افسانے
بند ہوئے عرفان کے چشمے ، فیض کے ٹوٹ گئے پیمانے

تب آئے وہ ساقی کوثر ، مست مئے عرفان ، پیمبر
پیرِ مغانِ بادۂ اطہر ، مے نوشوں کی عید بنانے

گھر آئیں گھنگور گھٹائیں ، جھوم اُٹھیں مخمور ہوائیں
جھک گیا ابرِ رحمتِ باری ، آبِ حیات نو برسانے

کی سیراب بلندی پستی ، زندہ ہو گئی بستی بستی
بادہ کشوں پر چھا گئی مستی ، اک اک ظرف بھرا برکھا نے

اک برسات کرم کی پیہم
صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم

چارہ گروں کے غم کا چارہ ، دُکھیوں کا اِمدادی آیا
راہنما٭بے راہرووں کا ، راہبروں٭ کا ہادی آیا

عارف کو عرفان سکھانے ، متقیوں کو راہ دکھانے
جس کے گیت زبور نے گائے ، وہ سردار منادی آیا

وہ جس کی رحمت کے سائے یکساں ہر عالم پر چھائے
وہ جس کو اللہ نے خود اپنی رحمت کی ردا دی ، آیا

صدیوں کے مردوں کا مُحی ، صَلِّ عَلَیْہِ کَیْفَ یُحْیٖ
موت کے چنگل سے انسان کو دلوانے آزادی آیا

جس کی دعا ہر زخم کا مرہم
صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم

شیریں بول ، انفاس مطہر ، نیک خصائل ، پاک شمائل
حاملِ فرقاں ، عالم و عامل ، علم و عمل دونوں میں کامل

جو اُس کی سرکار میں پہنچا ، اُس کی یوں پلٹا دی کایا
جیسے کبھی بھی خام نہیں تھا ، ماں نے جنا تھا گویا کامل

اُس کے فیضِ نگاہ سے وحشی ، بن گئے حلم سکھانے والے
معطی بن گئے شہر ۂ عالم ، اُس عالی دربار کے سائل

نبیوں کا سرتاج ، اَبنائے آدم کا معراج ، محمدؐ
ایک ہی جست میں طے کر ڈالے ، وصلِ خدا کے ہفت مراحل

ربّ ِعظیم کا بندئہ اعظم
صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم

وہ اِحسان کا اَفسوں پھونکا ، موہ لیا دل اپنے عدو کا
کب دیکھا تھا پہلے کسی نے ، حسن کا پیکر اس خوبو کا

نخوت کو ایثار میں بدلا ، ہر نفرت کو پیار میں بدلا
                           عاشق جان نثار میں بدلا ، پیاسا تھا جو خار لہو کا

اُس کا ظہور ، ظہور خدا کا ، دکھلایا یوں نور خدا کا
بتکدہ ہائے لات و منات پہ طاری کر دیا عالم ہو کا

توڑ دیا ظلمات کا گھیرا ، دُور کیا ایک ایک اندھیرا
جَاءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِل٭ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقا

گاڑ دیا توحید کا پرچم
صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم

٭ انہیں الف کی مد کے ساتھ ''رآہ نما'' اور ''رآہ بروں'' پڑھنا ہے۔
٭ شعر میں یہاں وقف کرنا ہے اس لئے بَاطِلٌ کی بجائے بَاطِلْ پڑھا جائے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں