کلام
طاہر ایڈیشن 2004صفحہ1۔3
1۔ ظہورخیرالانبیاء صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم
اِک رات مفاسد کی وہ تیرہ و تار آئی
جو نور کی ہر مشعل ظلمات پہ وار آئی
تاریکی پہ تاریکی ، گمراہی پہ گمراہی
ابلیس نے کی اپنے لشکر کی صف آرائی
طوفان ِمفاسد میں غرق ہو گئے بحر وبر
اِیرانی و فارانی ۔ رُومی و بُخارائی
بن بیٹھے خدا بندے ۔ دیکھا نہ مقام
اُس کا
طاغوت کے چیلوں نے ہتھیا لیا نام اُس
کا
تب عرشِ معلی سے اِک نور کا تخت اُترا
اِک فوج فرشتوں کی ہمراہ سوار آئی
اک ساعتِ نورانی ، خورشید سے روشن تر
پہلو میں لئے جلوے بے حد و شمار آئی
کافور ہوا باطل ، سب ظلم ہوئے زائل
اُس شمس نے دِکھلائی جب شانِ خودآرائی
ابلیس ہوا غارت ، چوپٹ ہوا کام اُس
کا
توحید کی یورش نے دَر چھوڑا نہ بام
اُس کا
وہ پاک محمدؐ ہے ہم سب کا حبیب آقا
اَنوار ِرسالت ہیں جس کی چمن آرائی
محبوبی و رعنائی کرتی ہیں طواف اُس
کا
قدموں پہ نثار اُس کے جمشیدی و دارائی
نبیوں نے سجائی تھی جو بزم مہ و اَنجم
واللہ اُسی کی تھی سب انجمن آرائی
دن رات درُود اُس پر ہر اَدنیٰ غلام
اُس کا
پڑھتا ہے بصد منت جپتے ہوئے نام اُس
کا
آیا وہ غنی جس کو جو اپنی دُعا پہنچی
ہم در کے فقیروں کے بھی بخت سنوار آئی
ظاہر ہوا وہ جلوہ جب اُس سے نگہ پلٹی
خود حسن نظر اپنا سو چند نکھار آئی
اے چشم خزاں دیدہ کھل کھل کہ سماں بدلا
اے فطرتِ خوابیدہ ! اُٹھ اُٹھ کہ بہار
آئی
نبیوں کا اِمام آیا ، اللہ اِمام اُس
کا
سب تختوں سے اُونچا ہے تخت عالی مقام
اُس کا
اللہ کے آئینہ خانے سے شریعت کی
نکلی وہ دُلہن کر کے جو سولہ سنگار
آئی
اُترا وہ خدا کوہ ِفارانِ محمدؐ پر
موسیٰ کو نہ تھی جس کے دیدار کی یارائی
سب یادوں میں بہتر ہے وہ یاد کہ کچھ
لمحے
جو اُس کے تصور کے قدموں میں گزار آئی
وہ ماہ تمام اُس کا ، مہدی تھا غلام
اُس کا
روتے ہوئے کرتا تھا وہ ذکر مدام اُس
کا
مرزائے غلام احمد ، تھی جو بھی متاع
جاں
کر بیٹھا نثار اُس پر۔ہو بیٹھا تمام
اُس کا
دل اُس کی محبت میں ہر لحظہ تھا رام
اُس کا
اِخلاص میں کامل تھا وہ عاشقِ تام اُس
کا
اِس دور کا یہ ساقی ، گھر سے تو نہ
کچھ لایا
مے خانہ اُسی کا تھا ، مَے اُس کی تھی،
جام اُس کا
سازندہ تھا یہ، اس کے۔ سب ساجھی تھے
میت اُس کے
دُھن اِس کی تھی، گیت اُس کے۔ لب اِس
کے ، پیام اُس کا
اِک میں بھی تو ہوں یاربّ، صیدِتہ دام
اُس کا
دل گاتا ہے گن اُس کے لب جپتے ہیں نام
اُس کا
آنکھوں کو بھی دکھلا دے ، آنا لب بام
اُس کا
کانوں میں بھی رس گھولے ، ہر گام خرام
اُس کا
خیرات ہو مجھ کو بھی اک جلوۂ عام اُس
کا
پھر یوں ہو کہ ہو دل پر اِلہام کلام
اُس کا
اُس بام سے نور اُترے، نغمات میں ڈھل
ڈھل کر
نغموں سے اُٹھے خوشبو، ہو جائے سرود
عنبر
نوٹ:۔ یہ نعت ١٩٧٦ء میں لکھی گئی تھی۔
بعد میں اس میں بعض اضافوں اور تبدیلیوں کے ساتھ پہلے ١٩٩٣ء کے جلسہ سالانہ انگلستان
میں اور پھر جلسہ سالانہ جرمنی میں پڑھی گئی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں