کلام
طاہر ایڈیشن 2004صفحہ34۔40
13۔ کس حال میں ہیں یارانِ وطن
١
پورب سے چلی پرنم پرنم باد ِرَوح و
رَیحانِ وطن
اُڑتے اُڑتے پہنچے پچھم سندر سندر مرغانِ
وطن
برکھا برکھا یادیں اُمڈیں ، طوفاں طوفاں
جذبے اُٹھے
سینے پہ بلائیں برسانے ، لپکے باد و
باران وطن
آ بیٹھ مسافر پاس ذرا ، مجھے قصۂ اہل
درد سنا
اُن اہل وفا کی بات بتا ، ہیں جن سے
خفا سکان وطن
اور اُن کی جان کے دشمن ہیں جو دیوانے
ہیں جانِ وطن
اے دیس سے آنے والے بتا ، کس حال میں
ہیں یارانِ وطن
٢
سو بسم اللہ جو کوئے دار سے چل کر سوئے
یار آئے
سر آنکھوں پر ہر راہ خدا کا مسافر ،
سو سو بار آئے
لیکن یہ سب کے نصیب کہاں ، ہر ایک میں
کب یہ طاقت ہے
کہ پیار کی پیاس بجھانے کو وہ سات سمندر
پار آئے
میں اب سمجھا ہوں وہ کیفیت کیا ہوتی
ہے جب دل کو
ہر دور افتادہ اُویس پہ لخت ِجگر سے
بڑھ کر پیار آئے
اِن مجبوروں کا حال بھلا کیا جانیں
تن آسانِ وطن
اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں
ہیں یارانِ وطن
٣
تو جور و جفا کی نگری ، صبر و وفا کے
دیس سے آیا ہے
ہے تجھ پہ عیاں مرے پیاروں پر غیروں
نے ستم جو ڈھایا ہے
آنکھوں میں رقم شکووں کی کتھا ، آہوں
میں بجھے نالوں کی صدا
کیا میرے نام یہی ہیں بتا جو تُو سندیسے
لایا ہے؟
مرے محبوبوں پر صبح و مسا ، پڑتی ہے
کیسی کیسی بلا
مری رُوح پہ ، برسوں بیت گئے اِن اَندیشوں
کا سایہ ہے
کیا ظلم و ستم رہ جائیں گے اب دُنیا
میں پہچانِ وطن
اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں
ہیں یارانِ وطن
٤
ظالم بدبخت کا نام نہ لے ، بس مظلوموں
کی باتیں کر
حاکم کا ذکر نہ چھیڑ ، آزُردہ محکوموں
کی باتیں کر
وہ جن سے لِلّٰہ بیر ہوئے ، جو اپنے
وطن میں غیر ہوئے
ان تختہ ءمشقِ ستم مجبوروں محروموں
کی باتیں کر
جیلوں میں رضائے باری کے جو گہنے پہنے
بیٹھے ہیں
اُن راہ ِخدا کے اَسیروں کی ، اُن معصوموں
کی باتیں کر
وہ جن کی جبینوں کے اَنوار سے روشن
ہیں زندانِ وطن
اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں
ہیں یارانِ وطن
٥
کیا اب بھی عوام وہاں ، جب بگڑیں بھاگ
، اذانیں دیتے ہیں
سیلاب تھپیڑے ماریں تو سب جاگ اذانیں
دیتے ہیں
کیا اب بھی سفید مناروں سے نفرت کی
منادی ہوتی ہے
دھرتی کے نصیب اُجڑتے ہیں جب ناگ اذانیں
دیتے ہیں
بلبل کو دیس نکالا ہے اور زاغ و زغن
سے یارانے
ہر سمت چمن کی منڈیروں پر کاگ اذانیں
دیتے ہیں
محرومِ اذاں گر ہیں تو فقط مرغانِ خوش
الحانِ وطن
اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں
ہیں یارانِ وطن
٦
اک ہم ہی نہیں چھنتے چھنتے جن کے سب
حق معدوم ہوئے
رفتہ رفتہ آزادی سے سب اہل وطن محروم
ہوئے
چلتا ہے وہاں اب کاروبار پہ سکہ نوکر
شاہی کا
اور کالے دھن کی فراوانی سے سب دھندے
مجذوم ہوئے
آزاد کہاں وہ ملک جہاں قابض ہو سیاست
پر ملا
جو شاہ بنے بے تاج بنے ، جو حاکم تھے
محکوم ہوئے
اور گھر کے مالک ہی بن بیٹھے باوردی
دربانِ وطن
اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں
ہیں یارانِ وطن
٧
سورج ہی نہیں ڈوبا اِک شب سب چاند ستارے
ڈوب گئے
بحرِ ظلمات کی طغیانی میں نور کے دھارے
ڈوب گئے
وہ نفرت کا طوفان اٹھا ، ہر شہر سے
اَمن و اَمان اٹھا
جلبِ زَر کا شیطان اٹھا ، مفلس کے سہارے
ڈُوب گئے
اے قوم ترا حافظ ہو خدا ، ٹالے سر سے
ہر ایک بلا
تا حد نظر سیل عصیاں ، ہر سمت کنارے
ڈوب گئے
بے کس بے بس کیا دیکھ رہی ہے اب چشم
حیرانِ وطن
اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں
ہیں یارانِ وطن
٨
اس رحمت عالم ابر کرم کے یہ کیسے متوالے
ہیں
وہ آگ بجھانے آیا تھا ، یہ آگ لگانے
والے ہیں
وہ والی تھا مسکینوں کا ، بیواؤں اور
یتیموں کا
یہ ماؤں بہنوں کے سر کی چادر کو جلانے
والے ہیں
وہ جود و سخا کا شہزادہ تھا بھوک مٹانے
آیا تھا
یہ بھوکوں کے ہاتھوں کی روٹی چھین کے
کھانے والے ہیں
یہ زر کے پجاری بیچنے والے ہیں دین
و ایمانِ وطن
اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں
ہیں یارانِ وطن
٩
ظالم مت بھولیں بالآخر مظلوم کی باری
آئے گی
مکاروں پر مکر کی ہر بازی اُلٹائی جائے
گی
پتھر کی لکیر ہے یہ تقدیر ، مٹا دیکھو
گر ہمت ہے
یا ظلم مٹے گا دَھرتی سے یا دَھرتی
خود مٹ جائے گی
ہر مکر اُنہی پر اُلٹے گا ، ہر بات
مخالف جائے گی
بالآخر میرے مولا کی تقدیر ہی غالب
آئے گی
جیتیں گے ملائک ، خائب و خاسر ہو گا
ہر شیطانِ وطن
اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں
ہیں یارانِ وطن
١٠
اِک روز تمہارے سینوں پر بھی وقت چلائے
گا آرا
ٹوٹیں گے مان تکبر کے بکھریں گے بدن
پارہ پارہ
مظلوموں کی آہوں کا دُھواں ظالم کے
اُفق کو کجلا دے گا
نمرود جلائے جائیں گے ، دیکھے گا فلک
یہ نظارہ
کیا حال تمہارا ہو گا جب شداد ملائک
آئیں گے
سب ٹھاٹھ دَھرے رہ جائیں گے جب لاد
چلے گا بنجارا
ظالم ہوں گے رُسوائے جہاں ، مظلوم بنیں
گے آنِ وطن
اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں
ہیں یارانِ وطن
جلسہ سالانہ یو کے ١٩٨٩ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں