صفحات

اتوار، 3 اپریل، 2016

9۔ دل سے زباں تک

کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ23۔25

دل سے زباں تک


کیا موج تھی جب دل نے جپے نام خدا کے
اِک ذکر کی دھونی مرے سینے میں رَما کے

آہیں تھیں کہ تھیں ذکر کی گھنگھور گھٹائیں
نالے تھے کہ تھے سیل ِرواں حمد و ثنا کے

سکھلا دیئے اُسلوب بہت صبر و رضا کے
اب اور نہ لمبے کریں دن کرب و بلا کے

اُکسانے کی خاطر تیری غیرت تیرے بندے
کیا تجھ سے دُعا مانگیں ستم گر کو سُنا کے

رکھ لاج کچھ اِن کی مرے ستار کہ یہ زخم
جو دل میں چھپا رکھے ہیں پتلے ہیں حیا کے

لاکھوں مرے پیارے تیری راہوں کے مسافر
پھرتے ہیں ترے پیار کو سینوں میں بسا کے

ہیں کتنے ہی پابندِ سلاسل وہ گنہگار
نکلے تھے جو سینوں پہ ترا نام سجا کے

میں اُن سے جدا ہوں مجھے کیوں آئے کہیں چین
دل منتظر اُس دن کا کہ ناچے اُنہیں پا کے

عشاق ترے جن کا قدم تھا قدمِ صدق
جاں دے دی نبھاتے ہوئے پیمان وفا کے

چھت اُڑ گئی سایہ نہ رہا کتنے سروں پر
اَرمانوں کے دن جاتے رہے پیٹھ دکھا کے

اِتنا تو کریں اُن کو بھی جا کر کبھی دیکھیں
ایک ایک کو اپنا کہیں سینے سے لگا کے

آداب محبت کے غلاموں کو سکھا کے
کیا چھوڑ دیا کرتے ہیں دیوانہ بنا کے؟

دیں مجھ کو اجازت کہ کبھی میں بھی تو رُوٹھوں
لطف آپ بھی لیں رُوٹھے غلاموں کو منا کے

لیکن مجھے زیبا نہیں شکوے میرے مالک
یہ مجھ سے خطا ہو گئی اوقات بھلا کے

دیوانہ ہوں دیوانہ ۔ برا مان نہ جانا
صدقے مری جاں ، آپ کی ہر ایک اَدا کے

سُنیئے تو سہی پگلا ہے دل پگلے کی باتیں
ناراض بھی ہوتا ہے کوئی دل کو لگا کے

ٹھہریں تو ذرا ۔دیکھیں ، خفا ہی تو نہ ہو جائیں
جانا ہے تو کچھ درس تو دیں صبر و رضا کے

جو چاہیں کریں ۔ صرف نگہ ہم سے نہ پھیریں
جو کرنا ہے کر گزریں مگر اپنا بتا کے

فطرت میں نہیں تیری غلامی کے سوا کچھ
نوکر ہیں اَزل سے تیرے چاکر ہیں سدا کے

اِس بار جب آپ آئیں تو پھر جا کے تو دیکھیں
کر گزروں کا کچھ ۔اب کے ذرا دیکھیں تو جا کے

جلسہ سالانہ یوکے ١٩٨٦ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں