صفحات

پیر، 4 اپریل، 2016

2۔ اے شاہ مکی و مدنی سید الورٰیؐ

کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ4۔6

اے شاہ مکی و مدنی سید الورٰیؐ


بزبان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام

اس کی شان ِنزول یہ ہے کہ رؤیا میں ایک شخص کو دیکھا کہ انتہائی درد میں ڈوبی ہوئی لَے کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ایک نعت اس انداز سے پڑھ رہا ہے گویا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سامنے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے آپ کے حضور حالِ دل پیش کیا جا رہا ہو۔ آپ کا وہ کلام تو اٹھنے پر لفظاً لفظاً میرے ذہن میں نہیں رہا تھا مگر اس کے ٹیپ کا مصرعہ
ع            اے میرے والے مصطفی ؐ
خوب ذہن پر نقش ہو گیا۔ کیونکہ وہ اسے بار بار ایک خاص کیفیت میں ڈوب کر دہراتا تھا۔
پس اسی روز گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نمائندگی میں اس اثر کو  اپنے لفظوں میں ڈھالنے کی کوشش  کی جو اس نعت کو سنتے ہوئے دل پر نقش ہو گیا ۔ اگرچہ معین الفاظ کی صورت میں نہیں ڈھلا۔ اور کوشش یہی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نعتوں میں سے ہی کچھ مضمون اخذ کر کے پیش کیا جائے اور جہاں ممکن ہو آپ ہی کے اشعار زینت کے طور پر جڑ دیئے جائیں۔

اَے شاہ مکی و مدنی ، سید الورٰی
تجھ سا مجھے عزیز نہیں کوئی دوسرا

تیرا غلامِ در ہوں ، ترا ہی اسیر عشق
تو میرا بھی حبیب ہے ، محبوب کبریا

تیرے جلو میں ہی مرا اٹھتا ہے ہر قدم
چلتا ہوں خاکِ پا کو تری چومتا ہوا

تو میرے دل کا نور ہے ، اے جانِ آرزو
روشن تجھی سے آنکھ ہے ، اے نیر ِہدی

ہیں جان و جسم ، سو تری گلیوں پہ ہیں نثار
اولاد ہے ، سو وہ ترے قدموں پہ ہے فدا

تو وہ کہ میرے دل سے جگر تک اتر گیا
میں وہ کہ میرا کوئی نہیں ہے ترے سوا

اے میرے والے مصطفی ، اے سید الوریٰ
اے کاش ہمیں سمجھتے نہ ظالم جدا جدا

رب ِجلیل کی ترا دل جلوہ گاہ ہے
سینہ ترا جمالِ الٰہی کا مستقر

قبلہ بھی تو ہے ، قبلہ نما بھی ترا وجود
شانِ خدا ہے تیری اداؤں میں جلوہ گر

نور و بشر کا فرق مٹاتی ہے تیری ذات
''بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر''

تیرے حضور تہ ہے مرا زانوئے ادب
میں جانتا نہیں ہوں کوئی پیشوا دگر

تیرے وجود کی ہوں میں وہ شاخِ باثمر
جس پر ہر آن رکھتا ہے ربّ الورٰی نظر

ہر لحظہ میرے درپئے آزار ہیں وہ لوگ
جو تجھ سے میرے قرب کی رکھتے نہیں خبر

مجھ سے عناد و بغض و عداوت ہے اُن کا دیں
اُن سے مجھے کلام نہیں لیکن اِس قدر

اے وہ کہ مجھ سے رکھتا ہے پرخاش کا خیال
''اے آں کہ سوئے من بدویدی بصد تبر

از باغباں بترس کہ من شاخ مثمرم
بعد از خدا بعشق محمد مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم''

آزاد تیرا فیض زمانے کی قید سے
برسے ہے شرق و غرب پہ یکساں ترا کرم

تو مشرقی نہ مغربی اے نور ِشش جہات
تیرا وطن عرب ہے ، نہ تیرا وطن عجم

تو نے مجھے خرید لیا اِک نگہ کے ساتھ
اب تو ہی تو ہے تیرے سوا میں ہوں کالعدم

ہر لحظہ بڑھ رہا ہے مرا تجھ سے پیار دیکھ
سانسوں میں بس رہا ہے ترا عشق دم بدم

میری ہر ایک راہ تری سمت ہے رواں
تیرے سوا کسی طرف اٹھتا نہیں قدم

اے کاش مجھ میں قوتِ پرواز ہو تو میں
اڑتا ہوا بڑھوں ، تری جانب سوئے حرم

تیرا ہی فیض ہے کوئی میری عطا نہیں
''ایں چشمہ رواں کہ بخلق خدا دہم

یک قطرہ ز بحر کمال محمد است
جان و دلم فدائے جمال محمد است
خاکم نثار کوچہ آل محمد است"


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں