درعدن
ایڈیشن 2008صفحہ59
30۔ میدان حشر کے تصور سے
نہ روک راہ میں مولا شتاب جانے دے
کھلا تو ہے تری ''جنت کا باب'' جانے
دے
مجھے تو دامن رحمت میں ڈھانپ لے یونہی
حساب مجھ سے نہ لے، بے حساب جانے دے
سوال مجھ سے نہ کر اے مرے سمیع و بصیر
جواب مانگ نہ اے ''لاجواب'' جانے دے
مرے گناہ تیری بخشش سے بڑھ نہیں سکتے
ترے نثار! حساب و کتاب جانے دے
تجھے قسم ترے ''ستّار'' نام کی پیارے
بروئے حشر سوال و جواب جانے دے
بلا قریب کہ یہ ''خاک'' پاک ہو جائے
نہ کر یہاں مری مٹی خراب جانے دے
رفیقِ جاں مرے ، یارِ وفا شعار مرے
یہ آج پردہ دری کیسی؟ پردہ دار مرے
''الفضل''5جون 1954ء
سبحان اللہ کیا ہی خوبصورت کلام ماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریں