درعدن
ایڈیشن 2008صفحہ106۔111
56۔
اسلام پر یہ سخت مصیبت کا وقت ہے
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ ان اشعار سے خلافت ترکی مراد ہے۔
اسلام پر یہ سخت مصیبت کا وقت ہے
کچھ اس میں شک نہیں کہ قیامت کا وقت
ہے
آفت میں گھرا ہے یہ آفت کا وقت ہے
مسلم قدم بڑھا کہ یہ ہمت کا وقت ہے
ہاں کچھ بھی شک نہیں ہے کہ ہمارے قصور
ہیں
مانگو دعائیں گر کے خدا کے حضور میں
تڑپا کرے نہ اب کوئی گلفام کے لئے
رونا ہو جس کو روئے وہ اسلام کے لئے
ہرگز کرے نہ کام کوئی نام کے لئے
ہو مال خرچ دین کے اکرام کے لئے
روؤ خدا کے سامنے آنسو بہاؤ تم
یہ آگ جس طرح سے بجھے اب بجھاؤ تم
ہم نے خدا کے دین کو بالکل بھلا دیا
جو جو تھے حکم سب کو نظر سے گرا دیا
دل سے خدا کا نقشِ محبت مٹا دیا
اتنے بڑھے کہ خوف بھی دل سے اٹھا دیا
فریاد سب کیا کریں آقا کے سامنے
تڑپا کریں نماز میں مولا کے سامنے
رب کریم فضل سے سن لے دعائیں سب
رحمت سے اپنی بخش ہماری خطائیں سب
گر حکم ہو تو کھول کے سینہ دکھائیں
سب
آقا سنیں تو قصہ دل کہہ سنائیں سب
دل کانپتا ہے ڈر سے زبان لڑکھڑاتی ہے
رحمت تیری مگر ذرا ہمت بندھاتی ہے
مانا کہ ہم تیرے بھی ہیں اور بدنما
بھی ہیں
ظالم بھی ہیں شریر بھی ہیں پُرریا بھی
ہیں
پر یہ خیال رکھ تیرے گھر کا دیا بھی
ہیں
بھاری تو ہے قصور پر کچھ بے خطا بھی
ہیں
منجدھار میں کشتی دیں پار اتارے کون؟
بگڑیں تو تیرے بن ہمیں بتلا سنوارے
کون؟
اوروں سے ہوا تھا وہ ہم سے ہوا نہیں
ہم سو گئے تو ہم کو جگایا گیا نہیں
پہلوں سے جو سلوک تھا ہم سے کیا نہیں
بھٹکے ہوؤں کو راہ بتائی تھی یا نہیں
اوروں کے واسطے تیری سنت ہی اور تھی
ان پر نظر رہی اور تھی شفقت ہی اور
تھی
بھٹکے وہ جب کبھی انہیں رستہ بتا دیا
بھولے سبق جو کوئی اسے پھر پڑھا دیا
سچ ہے کہ ہم کو تو نے بھی دل سے بھلا
دیا
بتلا تو کونسا ہے ہمیں راہ نما دیا؟
آیا ہے کون کفر کی تردید کے لئے
بھیجا ہے کس کو دین کی تجدید کے لئے
گھر گھر پڑا ہے دیں کا ماتم غضب ہوا
لہرا رہا کفر کا پرچم غضب ہوا
تجھ کو ہمارا کچھ بھی نہیں غم غضب ہوا
بدتر یہودیوں سے ہوئے ہم غضب ہوا
دیتے تھے دکھ سدا تیرے پیاروں سے لڑتے
تھے
ان کے لئے نبی پہ نبی ٹوٹے پڑتے تھے
اور اس سے بڑھ کے حال تو امت کا ہو
گا گیا
وعدہ جو تھا حبیب سے وہ کیجئے وفا
ہم مر رہے ہیں بھیج مسیحا کو اے خدا
آنکھوں میں دم ہے تن سے نکل کر اٹک
رہا
احسن سمجھ رہے ہیں ہر امرِ قبیح کو
وقت آ چکا ہے دیر سے بھیجو مسیح کو
جاتا ہے وقت ہاتھ سے دن گزرے جاتے ہیں
عیسیٰ نہ آج آتے ہیں نہ کل ہی آتے ہیں
آقا جو بے رخی تیری جانب سے پاتے ہیں
ہنستے ہیں غیر اب ہمیں دشمن بناتے٭
ہیں
اب تاب صبر کی ہمیں بالکل رہی نہیں
آفت وہ کونسی ہے جو ہم نے سہی نہیں
قبضے میں اپنے کوئی حکومت نہیں رہی
ہم لٹ گئے ہماری وہ عزت نہیں رہی
تازہ ستم ہے یہ کہ خلافت نہیں رہی
سب ملک ہم سے چھن گئے شوکت نہیں رہی
روتے ہیں خلد میں عمر و عاص زار زار
خالد کی روح جوش میں آتی ہے بار بار
عیسی مسیح آؤ پیمبر کا واسطہ
صورت دکھاؤ اس رخ انور کا واسطہ
لو دل ہمارے ہاتھ میں دلبر کا واسطہ
ہم کو بچاؤ ساقی کوثر کا واسطہ
ظلموں کی تیری قوم کا کچھ انتہاء نہیں
ضرب ''غلام
اہانت مولا''
سنتا نہیں
کب تک ہوائیں چرخ چہارم کی کھاؤ گے
اے ابن مریم اب بھی تشریف لاؤ گے
ہم مر چکیں گے جب ہمیں صورت دکھاؤ گے؟
کس کام آؤ گے؟ جو نہ اس وقت آؤ گے
وعدہ پہ گر نہ آئے تو کیا فائدہ ہوا
گو سچ تو یہ ہے کہ اب جو ہونا تھا ہو
چکا
٭بناتے ہیں یعنی بیوقوف بناتے ہیں،تضحیک وتمسخر کرتے
ہیں۔
از مضمون محترمہ بشریٰ صدیقہ صاحبہ ۔ربوہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں