صفحات

بدھ، 31 اگست، 2016

86۔ خدمت کے مقام پر کھڑا ہوں

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ149

86۔ خدمت کے مقام پر کھڑا ہوں


خدمت کے مقام پر کھڑا ہوں
چھوٹا ہوں مگر بہت بڑا ہوں

تیری ہی نہیں  تلاش مجھ کو
خود کو بھی تلاش کر رہا ہوں

منسوخ نہ ہو سکوں گا ہرگز
قدرت کا اٹوٹ فیصلہ ہوں

ایسا نہ ہو ٹوٹ پھوٹ جاؤں
آئینہ ترے وجود کا ہوں

مالک ہے تُو میرے جسم و جاں کا
چاہوں نہ تجھے تو کس کو چاہوں

بولوں تو ہوں عہد کی علامت
خاموش رہوں تو معجزہ ہوں

جس شوخ کی بات کر رہے ہو
اس کو تو ازل سے جانتا ہوں

وہ میرے وجود کا مخالف
میں اس کے بھلے کی سوچتا ہوں

طوفاں کو بھی ہو چلا ہے احساس
ساحل کے قریب آ گیا ہوں

منزل ہوں تو معتبر ہوں مضطرؔ!
رستہ ہوں تو سیدھا راستہ ہوں

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


87۔ بال جب آئنے میں آنے لگا

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ150

87۔ بال جب آئنے میں آنے لگا


بال جب آئنے میں آنے لگا
عکس اندر سے ٹوٹ جانے لگا

آنکھ باقی رہی نہ تصویریں
آئنہ آئنے کو کھانے لگا

تھک نہ جائیں مری نحیف آنکھیں
آتے آتے نہ اب زمانے لگا

ہم نے صدیوں کو سَہہ لیا ہنس کر
اب نہ لمحوں کے تازیانے لگا

منزلوں کو اُجالنے والے!
قافلوں کو کسی ٹھکانے لگا

آنکھ، آئینہ، عکس، سب تیرے
کون یہ درمیاں میں آنے لگا

لاَ اِلٰہ کا ہو یا  اَ نَا الْحَقْ کا
کوئی نعرہ کسی بہانے لگا

معترض! کچھ تو پوچھ مضطرؔ سے
کوئی الزام ہی پرانے لگا

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


88۔ پھر مجھے اندلس بلانے لگا

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ151۔152

88۔ پھر مجھے اندلس بلانے لگا


پھر مجھے اندلس بلانے لگا
مَیں بھری کشتیاں جلانے لگا

کُھل رہے ہیں قفس کے دروازے
کون آیا ہے، کون جانے لگا

اپنی طاقت کے بل پہ اک ناداں
ہم فقیروں کو آزمانے لگا

پہلے پوچھا ہمارا نام پتا
پھر ہمیں گالیاں سنانے لگا

ہم نے اُس کو پیامِ زیست دیا
وہ ہمیں موت سے ڈرانے لگا

اس کو چین آ سکا نہ کرسی پر
مَیں سرِ دار مسکرانے لگا

اس نے گل کر دیے چراغ تو مَیں
اشک در اشک جھلملانے لگا

آنکھ سے آنکھ تک چراغ جلے
شہر کا شہر جگمگانے لگا

جو مسلّط رہا تھا سال ہا سال
نام تک اس کا بھول جانے لگا

دل تشکّر کے جشن میں مضطرؔ!
فرطِ لذّت سے جھوم جانے لگا

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


89۔ تم کو بھی کوئی بددعا لگتی

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ153

89۔ تم کو بھی کوئی بددعا لگتی


تم کو بھی کوئی بددعا لگتی
تم بھی کہتے کبھی خدا لگتی

حسرتوں کا شمار بھی ہوتا
یہ نمائش بھی اے خدا! لگتی

بات کرتے اگر حوالے سے
ہر نئی بات آشنا لگتی

کس قدر حبس ہے سرِ مقتل!
اَبر ُکھلتا تو کچھ ہوا لگتی

ناخدا! اس میں تیرا کیا جاتا
میری کشتی کنارے جا لگتی

دل کی دِلّی اُجڑ گئی مضطرؔ!
پھول والوں کی کیا صدا لگتی

١٩٨٣ء

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


90۔ اسے یہ ڈر ہے زمین پر آسماں گرے گا

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ154

90۔ اسے یہ ڈر ہے زمین پر آسماں گرے گا


اسے یہ ڈر ہے زمین پر آسماں گرے گا
بدل کے رکھ دے گا شکل و صورت جہاں گرے گا

تم اپنی بانہوں میں اس کو بڑھ کر سنبھال لینا
ہوا کے رخ پر جہاز کا بادباں گرے گا

نجات مل جائے گی سفر کی صعوبتوں سے
سمندروں میں سرابِ عمرِ رواں گرے گا

کبھی تو دیکھے گا اپنی صورت کو آئنے میں
کبھی تو اپنی نظر میں وہ بدگماں گرے گا

خدا کرے آسماں کا خیمہ رہے سلامت
مکین بھی اب تو کہہ رہے ہیں مکاں گرے گا

بس ایک ہلکا سا لمس درکار ہے نظر کا
منافرت کا مجسّمہ ناگہاں گرے گا

بدن کی اس آگ کو جلاتے رہو عزیزو!
تمھارے اوپر ہی پھر پھرا کر دُھواں گرے گا

پکڑنے والے بھی منتظر ہیں چھتوں پہ مضطرؔ!
کہ یہ پرندہ گرا تو اب نیم جاں گرے گا

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


منگل، 30 اگست، 2016

91۔ ہر ایک سے گلے ملا، ہنس کر جدا ہؤا

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ155۔156

91۔ ہر ایک سے گلے ملا، ہنس کر جدا ہؤا


ہر ایک سے گلے ملا، ہنس کر جدا ہؤا
وہ جا چکا تو شہر میں محشر بپا ہؤا

جاناں کا اس طرح سے ہے چہرہ جلا ہؤا
جس طرح ہو گلاب پہ کندن مَلا ہؤا

گل چیں اداس، پھول پریشاں، چمن خموش
عہدِ غمِ فراق میں کس کا بھلا ہؤا

نکلا ہے آج اپنی انا کی حدود سے
ورنہ تھا اپنی سمت وہ کب کا چلا ہؤا

لہروں کے لمس سے تھے کنارے تھکے ہوئے
پانی اُتر گیا تو ذرا حوصلہ ہؤا

دریا کو پی کے اور بھی بے تاب ہو گیا
دھرتی کے درد سے تھا سمندر بھرا ہؤا

نہرِ فراتِ دیدہ و دل خشک ہو گئی
اب کے برس وہ معرکۂ کربلا ہؤا

پھر داغ ہائے دل کا نظارہ ہے دیدنی
پھر گلشنِ فراغ ہے پھولا پھلا ہؤا

دینے لگا دکھائی کنارہ وجود کا
مدّت کے بعد پیڑ نظر کا ہرا ہؤا

مٹّی میں مل کے بھی نہ کسی کام آ سکا
رستے کا روگ بن گیا پتھر پڑا ہؤا

مَیں جس کو ڈھونڈتا رہا آبادیوں کے بیچ
وہ مسکرا رہا تھا اکیلا کھڑا ہؤا

میرا وجود اس کے تصوّر میں کھو گیا
وہ خود اگر نہ سامنے آیا تو کیا ہؤا

مضطرؔ! بڑے طویل ہیں فرقت کے فاصلے
راہی تھکا تھکا ہؤا اور دن ڈھلا ہؤا

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


92۔ مجھ سے کہتی ہے یہ اب میری گراں جانی بھی

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ157

92۔ مجھ سے کہتی ہے یہ اب میری گراں جانی بھی


مجھ سے کہتی ہے یہ اب میری گراں جانی بھی
کیا ابھی اَور کوئی رہتی ہے قربانی بھی

شکل اس شوخ کی تھی ہم نے تو پہچانی بھی
وہ جو اس عہد کے انکار کا تھا بانی بھی

اب تو کہتے ہیں یہ غولانِ بیابانی بھی
عشق اس شہر کی عادت بھی ہے عریانی بھی

خوں بہا دے نہ سکا میرے لہو کا قاتل
یوں تو اس عہد میں تھی خون کی ارزانی بھی

یہ الگ بات کہ ہو جاتی ہیں نظریں زخمی
ورنہ منظر سے لپٹنے میں ہے آسانی بھی

حسن خود مائلِ گفتار ہے لیکن مضطرؔ!
کچھ تو ہو اس کے لیے سلسلہ جنبانی بھی

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی