اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ263
173۔ جن
کے لیے تُو خوار ہؤا شہر شہر میں
جن
کے لیے تُو خوار ہؤا شہر شہر میں
وہ
تیرا نام بھول گئے آٹھ پہر میں
دیوار
و در غضب میں، خدائی ہے قہر میں
پتھر
برس رہے ہیں شہیدوں کے شہر میں
پھر
قربتوں کی آنچ سے پتھر پگھل گئے
آبِ
حیات گھل گیا زخموں کے زہر میں
پھر
زیرِ آب آگئیں پھولوں کی بستیاں
سورج
غروب ہو گئے شبنم کے شہر میں
سوچو
تو دور دور کوئی آدمی نہیں
دیکھو
تو ہم سے سینکڑوں پاگل ہیں دہر میں
گھر
گھر یہاں صلیب ہے، سولی گلی گلی
عیسیٰ
کا انتظار ہے مدّت سے شہر میں
پگھلی
جو برف کُلّۂ کوہِ سفید پر
پتھر
پگھل کے ہو گئے آباد نہر میں
مضطرؔ
تلاشِ آب میں گھر سے نکل گیا
اس
چلچلاتی جاگتی جیتی دوپہر٭؎ میں
٭۔۔۔۔۔۔ ضرورتِ شعری
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں