صفحات

منگل، 30 اگست، 2016

94۔ اپنوں کو بھی پکارے، غیروں کا دم بھرے بھی

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ159

94۔ اپنوں کو بھی پکارے، غیروں کا دم بھرے بھی


اپنوں کو بھی پکارے، غیروں کا دم بھرے بھی
سائے سے ڈرنے والا دیوار سے ڈرے بھی

نیلام گھر کی بولی جیتے بھی اور ہرے بھی
میرے وطن کے سکّے کھوٹے بھی تھے، کھرے بھی

آواز کے کنارے کوئی تو بولتا ہے
کوئی تو بولتا ہے آواز سے پرے بھی

موسم بھی معتدل تھا، مٹی میں بھی نمی تھی
کچھ زخم بھرگئے تھے، کچھ زخم تھے ہرے بھی

چکّر میں آ گیا تھا آواز کا پرندہ
حائل تھے راستے میں موسم کے مشورے بھی

سنگلاخ راستوں میں گم ہو گئے مسافر
ایک ایک کر کے ٹوٹے منزل کے آسرے بھی

آشوبِ آرزو کے اس عہدِ بے نظر میں
متروک ہو گئے تھے دل کے محاورے بھی

اس شوخ کو ہے یوں تو وعدے کا پاس لیکن
پورا نہیں کرے گا وعدہ اگر کرے بھی

وہ پھول جا چکا تھا گلشن سے دُور مضطرؔ!
پر مانتے نہیں تھے بھنورے تھے بانورے بھی

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں