اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ165۔166
100۔ حادثہ یوں تو ٹل گیا ہے بہت
حادثہ یوں تو ٹل گیا ہے بہت
گھر کا نقشہ بدل گیا ہے بہت
اپنے اندر سے جل گیا ہے بہت
آگ بھی وہ نگل گیا ہے بہت
کچھ تو ماحول بھی تھا آلودہ
زہر بھی وہ اُگل گیا ہے بہت
اس کو پی لیجیے تسلّی سے
اب یہ آنسو اُبل گیا ہے بہت
عہد یوں بھی سفید پوش نہ تھا
کوئی کالک بھی مل گیا ہے بہت
زندگی رہ گئی ہے رستے میں
وقت آگے نکل گیا ہے بہت
کھڑکیاں کھول دو مکانوں کی
اب تو سورج بھی ڈھل گیا ہے بہت
اب کوئی حادثہ نہیں ہو گا
دلِ ناداں سنبھل گیا ہے بہت
سرحدوں میں سما نہیں سکتا
یہ نظارہ پگھل گیا ہے بہت
اس نے جب سے مکان بدلا ہے
اس کا لہجہ بدل گیا ہے بہت
خواہشوں کی پھوار میں کوئی
چلتے چلتے پھسل گیا ہے بہت
اس کی شاخیں تراش دو مضطرؔ!
یہ شجر پھول پھل گیا ہے بہت
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں