صفحات

جمعرات، 25 اگست، 2016

117۔ اس شہرِ انتخاب کےپتھر اٹھا لیے

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ184

117۔ اس شہرِ انتخاب کےپتھر اٹھا لیے


اس شہرِ انتخاب کےپتھر اٹھا لیے
واللّٰہ ہم نے لعل و جواہر اٹھا لیے

گھر سے چلے تو خاکِ وطن سر پہ ڈال لی
پلکوں پہ جیتے جاگتے منظر اٹھا لیے

پت جھڑ کے زرد شور میں بادِ شمال نے
افتادگانِ ماہِ دسمبر اٹھا لیے

بزمِ شعورِ ذات کے مسند نشین ہیں
وہ غم جو لاشعور سے لے کر اٹھا لیے

اس شہرِ بے قرار کے حالات دیکھ کر
آسودگانِ شہر نے بستر اٹھا لیے

چہرے کی تیز دھوپ میں چہرہ لپیٹ کر
زلفِ سیاہِ یار کے اژدر اٹھا لیے

تن کی چِتا سے عقل کی عیّار آنکھ نے
جلتے ہوئے جمال کے پیکر اٹھا لیے

دار و رسن کے مذہب و آئین کے خلاف
ہم جا چکے تو آپ نے پتھر اٹھا لیے

صدمے جو بھول کر بھی اٹھائے نہ تھے کبھی
عہدِ غمِ فراق میں مضطرؔ! اٹھا لیے

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں