اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ161
96۔ یادوں کی گزر گئیں سپاہیں
یادوں کی گزر گئیں سپاہیں
تکتی رہیں دور سے نگاہیں
فرقت کے برس رہے ہیں پتھر
خطرے میں ہیں انتظار گاہیں
پت جھڑ سے حساب مانگتی ہیں
پیڑوں کی خزاں رسیدہ بانہیں
پھولوں کا سکڑ گیا ہے سینہ
خوشبوؤں کی چھن گئیں پناہیں
تاریخ سے محوِ گفتگو ہوں
اِمکان پہ نصب ہیں نگاہیں
صحرائے نجف ہے اَور میں ہوں
اللّٰہ! کہاں ہیں میری بانہیں
شہروں نے نگل لیا زمیں کو
راہوں سے بچھڑ گئی ہیں راہیں
حیرت سے قلم کو تک رہی ہیں
کاغذ کی پھٹی ہوئی نگاہیں
ہونا تھا جو ہو چکا ہے مضطرؔ!
اب چین سے عمر بھر کراہیں
١٩٨٨ء
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں