اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ218
141۔ چراغِ شام مرجھایا تو ہو گا
چراغِ شام مرجھایا تو ہو گا
سحر کا رنگ گدرایا تو ہو گا
ابھی تک پتّیاں بکھری پڑی ہیں
گلوں کا قافلہ آیا تو ہو گا
اچانک کھل گیا دل کا معمّہ
خردمندوں نے الجھایا تو ہو گا
پرائے دیس کی آبادیوں میں
غریبِ شہر گھبرایا تو ہو گا
سنا ہے دل کی وحشت میں کمی ہے
یہ باغی راہ پر آیا تو ہو گا
چلو دل کے خرابے ہی میں گُھومیں
کہیں دیوار کا سایہ تو ہو گا
وہ مضطرؔ! ان کے ہاں پھر جا رہا ہے
اسے یاروں نے سمجھایا تو ہو گا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں