اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ201
127۔ ہر دید حضوری تو نہ ہووے
ہر دید حضوری تو نہ ہووے
اور دوری بھی دوری تو نہ ہووے
کر سکتے ہیں بات مختصر بھی
تمہید ضروری تو نہ ہووے
کس طرح ادا ہو حرفِ مطلب
تمہید ہی پوری تو نہ ہووے
سیکھا نہیں جاتا عشق کا فن
یہ بات شعوری تو نہ ہووے
مل جاتی ہے بے سبب بھی عزّت
''تقصیر'' ضروری تو نہ ہووے
اُلفت ہے خود آپ اپنی منزل
یہ چیز عبوری تو نہ ہووے
کھل کر کرو بات ان سے مضطرؔ!
فریاد ادھوری تو نہ ہووے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں