اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ243۔244
160۔ آہٹوں
سے ہے سارا گھر آباد
آہٹوں سے ہے سارا گھر آباد
اس خرابے کے ہیں کھنڈر آباد
ایک پل بھی ہمیں سکوں نہ ملا
لوگ رہتے ہیں عمر بھر آباد
کون محوِ خرام ہے دل میں
یہ خرابہ ہے کس قدر آباد
گھورتی ہیں ہزارہا آنکھیں
کہیں چہرے، کہیں بھنور آباد
منتظر ہیں روش روش یادیں
ٹہنی ٹہنی، شجر شجر آباد
شدّتِ غم سے داغ داغ ہے دل
ایک گھر میں ہیں لاکھ گھر آباد
کوئی اپنا رہے نہ بے گانہ
دل میں ہو جاؤ تم اگر آباد
حدِّ فاصل کو پار کون کرے
ہم ادھر اور تم ادھر آباد
سارا ہنگامہ تیرے فیض سے ہے
تُو رہے شاد ، نامہ بر! آباد
کون مضطرؔ ادھر سے گزرا ہے
ہو گئی ساری رہ گزر آباد
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں