اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ163
98۔ روکے سے نہ رک سکیں گی آہیں
روکے سے نہ رک سکیں گی آہیں
لمبی ہیں محبتوں کی بانہیں
خوشبو کے خرید کر جزیرے
پھولوں نے تراش لیں پناہیں
پھولوں کا لباس جل گیا ہے
غنچوں کی جھلس گئیں کلاہیں
یہ صوت و صدا ، یہ حرف و معنیٰ
ناقص ہیں تمام اصطلاحیں
لگتا ہے نماز پڑھ رہے ہیں
لفظوں کی کٹی ہوئی ہیں بانہیں
یا رب! کوئی آبرو کا آنسو
پانی کو ترس گئیں نگاہیں
پت جھڑ کے شہید سو رہے ہیں
تا حدِّ نظر ہیں خانقاہیں
تصویر کو اِذن دے سخن کا
آئینے کو بخش دے نگاہیں
یادوں میں گھری ہوئی ہیں مضطرؔ!
ماضی کی تمام سیر گاہیں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں