صفحات

بدھ، 24 اگست، 2016

125۔ اٹھتے اٹھتے اُٹھے نقاب بہت

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ197۔198

125۔ اٹھتے اٹھتے اُٹھے نقاب بہت


اٹھتے اٹھتے اُٹھے نقاب بہت
ہو گیا کوئی بے حجاب بہت

شرم سے ہے وہ آب آب بہت
اس کو اتنا بھی ہے عذاب بہت

بخش دے تو مجھے بغیرِ حساب
مجھ کو اتنا بھی ہے حساب بہت

خوابِ غفلت سے جاگ ،آنکھیں کھول
آ گیا سر پہ آفتاب بہت

ایک دل تھا کہ مطمئن نہ ہؤا
یوں تو میں نے دیے جواب بہت

کچھ تمھارا سوال بھی تھا غلط
ہو گیا وہ بھی لاجواب بہت

میرے ہمزاد نے کہا مجھ سے
''میں کروں گا تجھے خراب بہت''

ایک عیّار ہے دلِ ناداں
بھیس ہیں اس کے بے حساب بہت

مسکرا کر ملا کرو ہم سے
اس کا ہو گا تمھیں ثواب بہت

اَور بھی پھول ہوں گے دنیا میں
ہم کو ہے ایک ہی گلاب بہت

مسکرانے بھی دے انھیں مضطرؔ!
کر نہ زخموں کا احتساب بہت

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں