اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ222
144۔ خود صنم اٹھ کے چلے آئے صنم خانے سے
خود صنم اٹھ کے چلے آئے صنم خانے سے
کھوئے کھوئے سے، پریشان سے، بیگانے
سے
چاند نکلے گا ابھی بن میں اُجالا ہو
گا
قیس گھبرا کے نکل جائے گا ویرانے سے
اجنبی چہروں کے سیلابِ مسلسل میں کہیں
اور بھی لوگ ہیں کچھ جانے سے، پہچانے
سے
کوئی مقصد نہ کوئی زیست کا حاصل مضطرؔ!
دشت در دشت پڑے پھرتے ہیں دیوانے سے
(ابتدائی)
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں