اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ185۔186
118۔ آنسو
اُبل کے دیدۂ مضطرؔ میں آ گئے
آنسو اُبل کے دیدۂ مضطرؔ میں آ گئے
دستک دیے بغیر بھرے گھر میں آ گئے
لذّت ہمیں نصیب ہوئی انتظار کی
انعام سب ہمارے مقدّر میں آ گئے
آنسو گرا تو سوچ کا سینہ لرز گیا
طوفان آہٹوں کے سمندر میں آ گئے
ہنگامِ ذبح عمرِ گزشتہ کے واقعات
ایک ایک کر کے ذہنِ کبوتر میں آ گئے
خوابِ سحر سے جاگ بھی نادان! آنکھ کھول
سورج پگھل کے جامِ گلِ تر میں آ گئے
پردہ اُٹھا تو عقل کا چہرہ اُتر گیا
لاکھوں شگاف ذہن کی چادر میں آ گئے
"اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک
ہے''
تم کیوں مشاہدات کے چکّر میں آ گئے
کچھ لوگ رہنِ چشمۂ آبِ بقا ہوئے
اَور کچھ فریبِ بادہ و ساغر میں آ گئے
''ہر روز روزِ عید ہے، ہر شب
شبِ برات''
محفل سے اُٹھّے کوچۂ دلبر میں آ گئے
ذرّات کی برہنگی کی تاب تھی کسے
ذرّے جلے تو چاند بھی چکّر میں آ گئے
چہرہ دکھا دے شاہدِ معنٰی! قریب آ
الفاظ دامِ زلفِ معنبر میں آ گئے
اب بوالہوس غریب کرے بھی توکیا کرے
جو حادثے تھے دامنِ مضطرؔ میں آ گئے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں