صفحات

جمعرات، 25 اگست، 2016

118۔ آنسو اُبل کے دیدۂ مضطرؔ میں آ گئے

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ185۔186

118۔ آنسو اُبل کے دیدۂ مضطرؔ میں آ گئے


آنسو اُبل کے دیدۂ مضطرؔ میں آ گئے
دستک دیے بغیر بھرے گھر میں آ گئے

لذّت ہمیں نصیب ہوئی انتظار کی
انعام سب ہمارے مقدّر میں آ گئے

آنسو گرا تو سوچ کا سینہ لرز گیا
طوفان آہٹوں کے سمندر میں آ گئے

ہنگامِ ذبح عمرِ گزشتہ کے واقعات
ایک ایک کر کے ذہنِ کبوتر میں آ گئے

خوابِ سحر سے جاگ بھی نادان! آنکھ کھول
سورج پگھل کے جامِ گلِ تر میں آ گئے

پردہ اُٹھا تو عقل کا چہرہ اُتر گیا
لاکھوں شگاف ذہن کی چادر میں آ گئے

"اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے''
تم کیوں مشاہدات کے چکّر میں آ گئے

کچھ لوگ رہنِ چشمۂ آبِ بقا ہوئے
اَور کچھ فریبِ بادہ و ساغر میں آ گئے

''ہر روز روزِ عید ہے، ہر شب شبِ برات''
محفل سے اُٹھّے کوچۂ دلبر میں آ گئے

ذرّات کی برہنگی کی تاب تھی کسے
ذرّے جلے تو چاند بھی چکّر میں آ گئے

چہرہ دکھا دے شاہدِ معنٰی! قریب آ
الفاظ دامِ زلفِ معنبر میں آ گئے

اب بوالہوس غریب کرے بھی توکیا کرے
جو حادثے تھے دامنِ مضطرؔ میں آ گئے

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں