صفحات

بدھ، 10 اگست، 2016

194۔ شعورِ غم طبق اندر طبق ہے

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ289۔290

194۔ شعورِ غم طبق اندر طبق ہے


شعورِ غم طبق اندر طبق ہے
اسی غم سے زمیں کا سینہ شق ہے

یہ تیری دین ہے اے غم کے خالق!
دلوں میں روشنی کی جو رمق ہے

سنایا ہے جسے سولی پہ چڑھ کر
کتابِ عشق کا پہلا ورق ہے

عطا کر دے مجھے بھی خلعتِ غم
اگرچہ کوئی دعویٰ ہے نہ حق ہے

کوئی آیا نہ ہو دارالاماں میں
یہ کیا غوغائے شَرٍّ مَّا خَلَقْ ہے

نہ اب زیتون کو خطرہ خزاں کا
نہ اب رنگِ رخِ انجیر فق ہے

یہی تو ہے مقامِ قَابَ قَوْسَیْن
اِدھر تُو ہے، اُدھر ربِّ فلک ہے

ترے دشمن بھی کہنے پر ہیں مجبور
تو ّسچا ہے، تو صادق ہے، تو حق ہے

بھرم قائم ہے جس سے زندگی کا
وہ تیری مسکراہٹ کی شفق ہے

شعورِ غم تجھی سے مانگتا ہوں
کہ نازک مسئلہ ہے اور اَدق ہے

نہیں یہ قطرۂ شبنم نہیں ہے
یہ گل ہائے عقیدت کا عرق ہے

غلامی کا شرف تجھ کو ہے حاصل
تجھے کس بات کا مضطرؔ! قلق ہے

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں