اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ291۔292
195۔ سوچتا
ہوں کہ کوئی تجھؐ سے بڑا کیا ہو گا
سوچتا
ہوں کہ کوئی تجھؐ سے بڑا کیا ہو گا
تُو
اگر تُو ہے تو پھر تیرا خدا کیا ہو گا
مَیں
غلاموں کے غلاموں کا اک ادنیٰ خادم
مجھ
سا قسمت کا دھنی کوئی بھلا کیا ہو گا
تجھ
کو اللّٰہ نے لولاک کی خلعت بخشی
مستحق
اس کا کوئی تیرے سوا کیا ہو گا
میم
کے پردے میں مستور ہے تیرا مسکن
نامہ
لکھّوں تو بتا تیرا پتا کیا ہو گا
جب
دَنٰی
کا
فَتَدَلّٰی سے
ہؤا ہو گا ملاپ
فرق
قوسین کے مابین رہا کیا ہو گا
جب
ملاقات ہوئی ہو گی سرِ عرشِ بریں
دوست
نے دوست سے کیا جانے کہا کیا ہو گا
جس
نے مظلوم کی تقدیر بدل کر رکھ دی
زلزلہ
ہو گا، ترا اشک گرا کیا ہو گا
جس
کی ہیبت سے پہاڑوں کے بھی دل ہیں لرزاں
تجھ
پہ اُترا جو سرِ غارِ حرا، کیا ہو گا
تو
کہ اللّٰہ کا سایہ ہے اے حسنِؐ کامل!
جو
ترا سایہ ہے وہ تجھ سے جدا کیا ہو گا
تُو
محمدؐ بھی ہے،احمدؐ بھی ہے، محمودؐ بھی ہے
تیری
توصیف کا حق ہم سے ادا کیا ہو گا
تیرا
احساں ہے کہ مَیں نعت لکھوں ، تُوخوش ہو
ورنہ
مَیں کیا ہوں، مرا ِلکّھا ہؤا کیا ہو گا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں