اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ187۔188
119۔ یار کو دیکھنے اغیار کا لشکر نکلا
یار
کو دیکھنے اغیار کا لشکر نکلا
یار
وہ شوخ نہ گھر سے کبھی باہر نکلا
پاس
مقتل کے مرے کوچۂ دلبر نکلا
دار
سمجھے تھے جسے یار کا دفتر نکلا
دشت
پیمائی کی تکلیف اُٹھائی نہ گئی
دشت
پیمائی کا ساماں تو ّمیسر نکلا
ذرّے
ذرّے میں ملے گھومتے پھرتے سورج
قطرے
قطرے کو جو چیرا تو سمندر نکلا
اس
میں لذّت بھی ہے، تلخی بھی ہے،تنہائی بھی
ہجر
کا دن تو شبِ وصل سے بہتر نکلا
جیسے
یہ آپ ہی خود اپنا تماشائی ہو
چاند
یوں رات سرِ شاخِ صنوبر نکلا
منزلوں
پھیل گئی تیرے بدن کی نکہت
راستہ
تیری ہی خوشبو سے معطّر نکلا
کون
یہ آخرِ شب کر گیا مجھ کو بے تاب
کون
یہ گھر کو مرے آگ لگا کر نکلا
اپنوں
بے گانوں میں رہنے لگے چرچے ہر دم
اتنا
احسان تو احباب کا ہم پر نکلا
ہر
طرف پھیل گئی ہجر کی زردی مضطرؔ!
چاند
چہرے پہ لیے درد کی چادر نکلا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں