صفحات

بدھ، 31 اگست، 2016

87۔ بال جب آئنے میں آنے لگا

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ150

87۔ بال جب آئنے میں آنے لگا


بال جب آئنے میں آنے لگا
عکس اندر سے ٹوٹ جانے لگا

آنکھ باقی رہی نہ تصویریں
آئنہ آئنے کو کھانے لگا

تھک نہ جائیں مری نحیف آنکھیں
آتے آتے نہ اب زمانے لگا

ہم نے صدیوں کو سَہہ لیا ہنس کر
اب نہ لمحوں کے تازیانے لگا

منزلوں کو اُجالنے والے!
قافلوں کو کسی ٹھکانے لگا

آنکھ، آئینہ، عکس، سب تیرے
کون یہ درمیاں میں آنے لگا

لاَ اِلٰہ کا ہو یا  اَ نَا الْحَقْ کا
کوئی نعرہ کسی بہانے لگا

معترض! کچھ تو پوچھ مضطرؔ سے
کوئی الزام ہی پرانے لگا

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں