اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ240
158۔ عقل
تنہا، دلِ ناداں تنہا
عقل تنہا، دلِ ناداں تنہا
جس کو دیکھو، ہے پریشاں تنہا
اشک در اشک پکارا ان کو
رات کی سیرِ چراغاں تنہا
پھر کسی یاد کے چوراہے پر
رُک گئی عمرِ گریزاں تنہا
کوئی ساتھی ہے نہ کوئی محرم
کیسے گزرے گی مری جاں! تنہا
تُو نہاں خانۂ دل میں مستور
میں بھری بزم میں عریاں تنہا
اتنے شائستہء منزل ہو کر
پھر بھی رہتے ہیں غزالاں تنہا
اس کا مفہوم بدل جاتا ہے
زندگی یوں تو ہے آساں تنہا
راستے محوِ تلاشِ منزل
منزلیں سربگریباں تنہا
وہ بھی مضطر ہیں ہماری خاطر
ہم ہی ان پر نہیں قرباں تنہا
ہم تو کافر ہیں بجا ہے صاحب
ہو تو اک تم ہو مسلماں تنہا
شیخ بے ذوق ہے، واعظ غافل
ایک مضطرؔ ہے غزل خواں تنہا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں