صفحات

پیر، 22 اگست، 2016

133۔ میں جب بھی سرِ دیدۂ تر گیا

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ208

133۔ میں جب بھی سرِ دیدۂ تر گیا


میں جب بھی سرِ دیدۂ تر گیا
نہاں خانۂ دل سے ہو کر گیا

ہوئے جب سے ہم آہٹوں کے اسیر
وہ سننے سنانے کا چکر گیا

اندھیروں کے انجام کو دیکھنے
سرِ چشم تاروں کا لشکر گیا

ستارے ستاروں سے ٹکرا گئے
خلاؤں کا دل شور سے بھر گیا

سبھی راستے دشت میں رہ گئے
مَیں خود دشت کے پار اکثر گیا

سرِ دار کوئی صدا تھی نہ شور
تو کیوں اپنی آواز سے ڈر گیا

میں بیٹھا رہا دل کی دہلیز پر
نہ باہر رُکا مَیں، نہ اندر گیا

وہ صدیوں سے اس گھر میں آباد ہے
ابھی چاند کھڑکی سے باہر گیا

ازل آرزوؤں کی دیوار پر
جو بیٹھا ہؤا تھا کبوتر گیا

وہ پھر آ گئی زندگی راہ پر
وہ پھر ان کے ہاں آج مضطرؔ گیا

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں