اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ251۔252
166۔ حضرت
صاحبزادہ مرزابشیراحمد صاحب ایم۔اے کی وفات پر
روٹھ
کر جب وہ گل عذار گیا
تیر
اک دل کے آر پار گیا
ابنِ
احمد، برادرِ محمود
اور
یارِ ازل کا یار گیا
قَمَرُ
الْاَنْبِیَاء، حلیم و حکیم
پیکرِ
عجز و انکسار گیا
حسن
و احسان میں نظیرِ پدر
آدمیت
کا شاہکار گیا
بے
نواؤں کا، بے سہاروں کا
چین
جاتا رہا، قرار گیا
اس
کا اُٹھنا، جہان کا اُٹھنا
علم
رخصت ہؤا، وقار گیا
عشق
کے، درد کے، محبت کے
قرض
جتنے تھے سب اُتار گیا
اپنے
اک دلربا تبسّم سے
میری
بگڑی ہوئی سنوار گیا
زہے
اس کی حیات، اس کی ممات
کامیاب
آیا، کامگار گیا
اپنے
بھائی کو چھوڑ کر تنہا
اپنے
بھائی کا غمگسار گیا
وہ
بغیرِ حساب کا مصداق
مغفرت
کا اُمیدوار گیا
وقتِ
رخصت بصد ہزار درود
لے
کر اشکوں کا مَیں بھی ہار گیا
فرطِ
غم سے نہ جانے کیوں مضطرؔ!
اس
کے در پر مَیں بار بار گیا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں