اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ167۔168
101۔ مَیں بُرا اَور وہ بھلا ہے بہت
مَیں بُرا اَور وہ بھلا ہے بہت
میرے اللّٰہ! فاصلہ ہے بہت
ا چھا اچھا، بُرا بُرا ہے بہت
اب تو آسان فیصلہ ہے بہت
دیکھیے! جیت کس کی ہوتی ہے
میرا مجھ سے مقابلہ ہے بہت
اجنبی اجنبی سا لگتا ہے
یہ نیا گھر ابھی نیا ہے بہت
ٹوٹ جائے نہ فرطِ لذّت سے
آئنہ مسکرا رہا ہے بہت
''کوئی صورت نظر نہیں آتی''
سر سے پانی گزر گیا ہے بہت
ہم ترے عہد میں ہوئے پیدا
ہم کو اتنا بھی واسطہ ہے بہت
غم دیا، غم کا احترام دیا
تُو نے جو بھی دیا، دیا ہے بہت
پھر کوئی حادثہ نہ ہو جائے
آرزوؤں کا جمگھٹا ہے بہت
یار! اتنے بھی ہم حقیر نہیں
ہم نے مانا کہ تو بڑا ہے بہت
عقل ناراض ہو گئی مضطرؔ!
دلِ نادان بولتا ہے بہت
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں