اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ159۔160
99۔ دھرتی کو نہ آگ سے بیاہیں
دھرتی کو نہ آگ سے بیاہیں
ہو جائیں بھَسَم نہ خواب گاہیں
موڑے سے نہ مڑ سکیں گے دریا
روکے سے نہ رک سکیں گی راہیں
شہروں سے نکل کے راستوں نے
کھنڈرات میں ڈھونڈ لیں پناہیں
تصویر کو آ گیا پسینہ
آئینے کی تھک گئیں نگاہیں
ہے ایک سے اک حسین بڑھ کر
چاہیں بھی تو کس حسیں کو چاہیں
بارش نہ ہوئی تو آنسوؤں سے
دھو لیں گے وفا کی شاہراہیں
دیوار پہ بولتے ہیں کوّے
آنگن میں گڑی ہوئی ہیں بانہیں
مولا! اسے سایہ دار کر دے
ننگی ہیں مرے وطن کی راہیں
مضطرؔ ہے جہان بھر کا ضدّی
چاہے گا وہی جو آپ چاہیں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں