اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ275
185۔ آئنے
کا دل نہ اب چیریں بہت
آئنے
کا دل نہ اب چیریں بہت
اس
میں آسودہ ہیں تصویریں بہت
دل
کی دیواروں پہ جو لکھّی گئیں
ہم
کو اتنی بھی ہیں تحریریں بہت
جو
لکھا ہے اس کو دُہرایا کرو
مت
کرو اب اس کی تفسیریں بہت
جاؤ
گے کس منہ سے ان کے سامنے
نیکیاں
کم اور تقصیریں بہت
اب
مجھے پڑھنے کی کوشش بھی کرو
پڑھ
چکے ہو میری تحریریں بہت
آرزو
ہے آرزوؤں کی اسیر
اس
کے پاؤں میں ہیں زنجیریں بہت
اک
دلِ ناداں نہ آیا راہ پر
ہم
نے کیں کرنے کو تسخیریں بہت
خوبیاں
اُن کی مبارک ہوں اُنھیں
مجھ
کو مضطرؔ! میری تقصیریں بہت
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں