اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ151۔152
88۔ پھر مجھے اندلس بلانے لگا
پھر مجھے اندلس بلانے لگا
مَیں بھری کشتیاں جلانے لگا
کُھل رہے ہیں قفس کے دروازے
کون آیا ہے، کون جانے لگا
اپنی طاقت کے بل پہ اک ناداں
ہم فقیروں کو آزمانے لگا
پہلے پوچھا ہمارا نام پتا
پھر ہمیں گالیاں سنانے لگا
ہم نے اُس کو پیامِ زیست دیا
وہ ہمیں موت سے ڈرانے لگا
اس کو چین آ سکا نہ کرسی پر
مَیں سرِ دار مسکرانے لگا
اس نے گل کر دیے چراغ تو مَیں
اشک در اشک جھلملانے لگا
آنکھ سے آنکھ تک چراغ جلے
شہر کا شہر جگمگانے لگا
جو مسلّط رہا تھا سال ہا سال
نام تک اس کا بھول جانے لگا
دل تشکّر کے جشن میں مضطرؔ!
فرطِ لذّت سے جھوم جانے لگا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں