اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ203
129۔ اس فیصلے میں میرا اگر نام آئے گا
اس فیصلے میں میرا اگر نام آئے گا
تہمت لگے گی تم پہ بھی الزام آئے گا
اس کو علامتوں کی ضرورت نہیں رہی
اب کے وہ آئے گا تو سرِ عام آئے گا
کب تک رہے گی خلقِ خدا اس کی منتظر
کوئی تو آسمان سے پیغام آئے گا
سائے کی طرح ہر کوئی دیوار گیر ہے
وہ جائے گا تو خلق کو آرام آئے گا
خوشبو پہن کے نکلی ہے آواز عہد کی
لگتا ہے کوئی صاحبِ الہام آئے گا
آواز آ رہی ہے یہی آسمان سے
اب طائرِ زمیں نہ تہِ دام آئے گا
مجھ ہی سے اس کی خط و کتابت ہے آجکل
آئے گا اس کا خط تو مرے نام آئے گا
مضطرؔ کو جلنے دیجیے فرقت کی آگ میں
پتھر پگھل گیا تو کسی کام آئے گا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں