صفحات

جمعہ، 12 اگست، 2016

183۔ کہہ رہا تھا نہ سن رہا کوئی

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ273

183۔ کہہ رہا تھا نہ سن رہا کوئی


کہہ رہا تھا نہ سن رہا کوئی
عمر بھر بولتا رہا کوئی

بات کے موڑ پر کھڑا کوئی
جانے کیا سوچتا رہا کوئی

اشک یوں رک گئے سرِ مژگاں
جیسے گر کر سنبھل گیا کوئی

سنگدل تھے تمام چھوٹے بڑے
کوئی پتھر تھا، آئنہ کوئی

گھر میں آیا تو اپنے آپ سے بھی
اجنبی کی طرح ملا کوئی

اپنی تصویر سے لڑائی ہے
آئنے سے نہیں گلہ کوئی

موت کے بعد یوں لگا مضطرؔ!
جیسے پیدا ہؤا نہ تھا کوئی

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں