صفحات

پیر، 15 اگست، 2016

169۔ صاحبزادہ مرزاغلام قادر صاحب کے راہِ مولیٰ میں قربان ہونے پراُن کے والدِ گرامی صاحبزادہ مرزا مجید احمدصاحب سَلَّمَہُ ﷲ تَعَالٰی کی زبان سے

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ257۔259

169۔ صاحبزادہ مرزاغلام قادر صاحب کے راہِ مولیٰ میں قربان ہونے پراُن کے والدِ گرامی صاحبزادہ مرزا مجید احمدصاحب سَلَّمَہُ ﷲ تَعَالٰی کی زبان سے


ڈھل گئی رات کوئی بات کرو
تجھ سے ملنے کے لیے آیا ہوں
کاسۂ جاں کو لیے
اشک بکف
دست بہ دل
چند لمحے جو ہیں تنہائی کے
ان کو غنیمت جانو
دن چڑھے
جوق در جوق چلے آئیں گے
سوگواروں کے ہجوم
بچے اور بوڑھے
غریب اور امیر
چاہنے والے تیرے
تیری الفت کے اسیر
بانٹنے آئیں گے میرے غم کو
پونچھنا چاہیں گے چشمِ نم کو
دینے آئیں گے محبت کا صلہ
کرنے آئیں گے گلہ
کہ تجھے جانے کی
اتنی بھی جلدی کیا تھی
اور ان سب کے احسان تلے
اور بھی جھک جائیں گے
ناتواں کاندھے مرے
ایسے محسوس کروں گا جیسے
میں ہی زخمی نہیں
زخمی سب ہیں
اور پھر کس کو نہیں ہے معلوم
نرم گفتار تھا تو
صاحبِ کردار بھی تھا
آہنی عزم وارادے کا دھنی تھا کتنا
مسکراتا ہؤا، ہنستا ہؤا
واپس آیا اتنی فتوحات کے بعد
وقف کاعہد نبھانے کے لیے
خدمت ِدین کی، درویشی کی خلعت پہنے
بصد عجز ونیاز
بخدا بیٹے ہی نہیں ہو میرے
میرے محبوب بھی ہو
نہیں میرے محبوب نہیں
میرے محبوب کے محبوب کے بھی ہو
زہے قسمت تیری
زہے قسمت تیری
زہے قسمت تیری
یہ سعادت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے
لیکن اے جانِ پدر!
یہ حقیقت ہے اگر،
یہ بھی تو ایک حقیقت ہے
کہ یہ تنہائی کے لمحات
کتنے لمبے ہیں
کٹھن بھی ہیں بہت
کیسے گزریں گے مجھے معلوم نہیں
لِلّٰہ الحمد کہ مالک کی رضا کے آگے
سرتسلیم ہے خم
وہ اگر خوش ہے
تو مَیں بھی خوش ہوں
اور یہ مرحلہ محرومی کا
آخر کار گزر جائے گا
لیکن اے جانِ پدر!
اک کٹھن مرحلہ اور بھی ہے
یعنی وہ مادرِ مشفق تیری
صبروتسلیم کی چادر اوڑھے
یادسینے سے لگائے، خاموش
دم بخود، مہر بلب بیٹھی ہے
اور پھر
وہ عفیفہ، مری بیٹی، مری عزّت
تری جیون ساتھی
لٹ گیا جس کا سہاگ
اور وہ ننھے فرشتے چاروں
ہوبہو باپ کی تصویر
ان کھلے غنچے
مرے باغ کے پھول
جگر کے ٹکڑے
مرے نورِ نظر
سطوت اور کرشن
مفلح اور نورالدّین
ان کو کچھ علم نہیں
حشربرپا ہؤا
کیسی قیامت ٹوٹی
ان کو سمجھاؤں تو کیسے سمجھاؤں
نہ مرے پاس کوئی لفظ، نہ کوئی لہجہ
ان کو کیا علم کہ یہ
ایک دو پل کی نہیں بات
کہ یہ بات زمانے کی ہے
لوٹ کر نہ آنے کی ہے
اس لیے جانِ پدر!
مری تنہائی غنیمت جانو
ڈھل گئی رات
کوئی بات کرو
اورکوئی لفظ، کوئی لہجہ ہی سوغات کرو
پھرکسی یاد کی برسات کرو
کشت ویراں ہے مری
میرا سینہ ہے اجاڑ
اور یہ فرقت کا پہاڑ
خشک، بے آب وگیاہ
مسکرا کر اسے جل تھل کردو
فرطِ لذّت سے مجھے پاگل کردو

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں