اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ173
106۔ کچھ تو دنیا بھی آنی جانی لگی
کچھ تو دنیا بھی آنی جانی لگی
کچھ گلی یار کی سہانی لگی
ان کی ہر بات کا یقیں آیا
ان کی ہر بات آسمانی لگی
ان کا غصّہ ہے پیار سے بڑھ کر
ان کی سختی بھی مہربانی لگی
ان سے مل کر بدل گئی ہر چیز
عمرِ فانی بھی جاودانی لگی
اک قیامت گزر گئی دل پر
سننے والوں کو اک کہانی لگی
سر جھکا کر جو غور سے دیکھا
ہر نئی آرزو پرانی لگی
تیرے غم کے بغیر مضطرؔ کو
کتنی بے کار زندگانی لگی
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں