اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ211۔212
135۔ کسی کے روکنے سے کم رکے گا
کسی کے روکنے سے کم رکے گا
یہ طوفاں خودبخود یک دم رکے گا
طلوعِ صبح تک ہے شورِ محشر
گھڑی بھر میں یہ زیر و بم رکے گا
ہوس کی آگ ہے جلتی رہے گی
دھواں اُٹھتا رہے گا، دم رکے گا
تم آ جاؤ تو کچھ تسکین ہو گی
یہ دردِ دل ذرا باہم رکے گا
ہماری یاد تڑپایا کرے گی
زمانہ روئے گا جب دم رُکے گا
بتا اے کاروبارِ غم کے خالق!
کبھی یہ کاروبارِ غم رکے گا؟
کہیں گل بھی نہ ہنسنا بند کر دیں
سنا ہے گریۂ شبنم رکے گا
یہ چلتا چوک ہے چہرے چھپا لو
یہاں ہر ایک نامحرم رکے گا
یہ شہرِ غم ہے، وہ شہرِ طلب ہے
کہیں تو چاند کا پرچم رکے گا
عدم کی سرزمیں بھی آن پہنچی
پرائے دیس کا ماتم رکے گا
یہی رودِ چنابِ آرزو ہے
یہیں تو چاند کا پرچم رکے گا
زمانہ آئے گا ملنے کو مضطرؔ!
سرِ مرقد بچشمِ نم رکے گا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں