صفحات

اتوار، 28 اگست، 2016

102۔ چھوڑ کر عقل کی باتیں ساری

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ169

102۔ چھوڑ کر عقل کی باتیں ساری


چھوڑ کر عقل کی باتیں ساری
عشق سے مانگ زکوٰتیں ساری

اسؐ کی توصیف مکمل نہ ہوئی
ہو گئیں ختم لغاتیں ساری

توڑ کر پھینک دے اسؐ کے در پر
یہ قلم اور دواتیں ساری

اسؐ کی نظروں سے چھپا کر رکھنا
صوم اپنے یہ صلاتیں ساری

اسؐ سے ہی ملتے ہیں سارے انعام
سارے اکرام، نجاتیں ساری

دیکھنا ان کو چھپا کر رکھنا
کام آئیں گی یہ راتیں ساری

ہے فقط عشق نجیب الطرفین
اَور کم ذات ہیں ذاتیں ساری

تن کی مٹی ہو کہ من کا سونا
ایک ہی دھات ہیں دھاتیں ساری

سامنا انؐ سے ہؤا جب مضطرؔ!
خود گرا دو گے قناتیں ساری

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں