اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ276
186۔ وہ
یہیں آس پاس ہے اب بھی
وہ
یہیں آس پاس ہے اب بھی
اس
سے ملنے کی آس ہے اب بھی
ایک
آنسو گرا تھا پچھلے سال
شہر
بھر میں ہراس ہے اب بھی
آنسوؤں
کی زباں سمجھتا ہے
وہ
ستارہ شناس ہے اب بھی
وہ
لہو میں نہا کے نکلا ہے
اس
کا اجلا لباس ہے اب بھی
وہ
گئے موسموں کی خوشبو ہے
اس
کی پھولوں میں باس ہے اب بھی
کہیں
ننگے بدن نہ جایا کرے
ُگل
سے یہ التماس ہے اب بھی
تیرا
فردوس سے نکالا ہؤا
آدمی
بے لباس ہے اب بھی
عقل
کو اب بھی ہے گلہ مضطرؔ!
دل
سراپا سپاس ہے اب بھی
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں