اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ277۔278
187۔ نہ
ذکرِ دورئ منزل، نہ فکرِ جادہ کریں
نہ
ذکرِ دورئ منزل، نہ فکرِ جادہ کریں
یہ
راہِ عشق ہے، طے اس کو پا پیادہ کریں
بفیضِ
ساقئ کوثر مئے طہور پئیں
نہ
شیخِ شہر سے اُلجھیں، نہ ترکِ بادہ کریں
سفر
طویل ہے، اہلِ سفر نہ گھبرائیں
نظر
بلند، قدم تیز، دل کشادہ کریں
ہیں
جس سے آج بھی اغیار لرزہ بر اندام
اسی
روایتِ ُکہنہ کا پھر اعادہ کریں
یہ
درس جس نے دیا تھا 'شہید زندہ ہیں'
اسی
مدرّسِ اعلیٰ سے استفادہ کریں
بلا
کشانِ محبت یہ بندگانِ حقیر
پہاڑ
پیس کے رکھ دیں اگر ارادہ کریں
حدیث
ان کے مقامِ بلند پر ہے گواہ
حدیث
جس کی روایت ابوقتادہؓ کریں
نہیں
پسند انھیں ڈھنگ اہلِ دنیا کے
یہ
وار سخت کریں اور بات سادہ کریں
سلام
بھیجا ہے کشمیر کے اسیروں نے
قدم
بڑھائیں، توقُّف نہ اب زیادہ کریں
یہ
مسجدیں، یہ مقابر، یہ بے کفن مقتول
حضورِ
داورِ محشر گلہ مبادا کریں
نہ
ہاتھ اٹھانے کی جرأت ہو پھر کبھی اس کو
کچھ
اس ارادے سے دشمن کو بے ارادہ کریں
بیادِ
اہلِ وفائے چونڈہ و لاہور
قدم
قدم پہ لڑیں، رقص جادہ جادہ کریں
حضورِ
خواجۂؐ بدر و حنین بہرِ سلام
لہو
میں بھیگا ہؤا زیبِ تن لبادہ کریں
گزر
رہے ہیں شہیدوں کے قافلے مضطرؔ!
کریں
تو ان سے ملاقات کا ارادہ کریں
١٩٦٥ء
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں