اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ279۔280
188۔ اپنے
سائے سے ڈر رہے ہیں لوگ
اپنے
سائے سے ڈر رہے ہیں لوگ
جی
رہے ہیں نہ مر رہے ہیں لوگ
آج
خود سے ملے ہیں پہلی بار
جانے
اب تک کدھر رہے ہیں لوگ
اپنی
تصویر دیکھنے کے لیے
پانیوں
میں اُتر رہے ہیں لوگ
یہ
جو سورج چڑھا ہے آدھی رات
اس
کا انکار کر رہے ہیں لوگ
ق
ان
کو چاہو، انھیں سلام کرو
چاند
کے ہمسفر رہے ہیں لوگ
جانتے
ہیں پتے حسینوں کے
عمر
بھر نامہ بر رہے ہیں لوگ
ہو
رہے ہیں یہ زندۂ جاوید
مر
رہے ہیں نہ ڈر رہے ہیں لوگ
عین
ازل اور ابد کے سنگم پر
لمحہ
لمحہ گزر رہے ہیں لوگ
جس
حقیقت کو کھو دیا تم نے
اس
کو دریافت کر رہے ہیں لوگ
آ
گئے ہیں نکل کے سڑکوں پر
زینتِ
بام و در رہے ہیں لوگ
تم
بھی مضطرؔ! اسے بغور سنو
یہ
جو اعلان کر رہے ہیں لوگ
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں