اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ223
145۔ ہجر کی رات مختصر نہ ہوئی
ہجر کی رات مختصر نہ ہوئی
نالہ کرتے رہے، سحر نہ ہوئی
ایسے سوئے کہ پھر نہ جاگے لوگ
دن چڑھا بھی تو کچھ خبر نہ ہوئی
ہم اسے آدمی نہیں کہتے
جس کی انجام پر نظر نہ ہوئی
اڑ گئے خاک ہو کے راہوں میں
منزلِ شوق پھر بھی سر نہ ہوئی
کبھی غیروں سے بھی نباہ کیا
کبھی اپنوں میں بھی بسر نہ ہوئی
سَو بہانے کیے، ہزار جتن
دن گزارا تو شب بسر نہ ہوئی
تیرے ہو کر کسی کے کہلاتے
اک یہی بات عمر بھر نہ ہوئی
آخر ان کو بھی پیار آ ہی گیا
میری فریاد بے اثر نہ ہوئی
تجھ سے مل کر بھی تیری فرقت میں
کون سی آنکھ تھی جو تر نہ ہوئی
کبھی رویا، کبھی ہنسا مضطرؔ!
کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں