اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ255۔256
168۔ بروفات
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ
پھر
وہی ذکر سرِ وادئ سینا ہو گا
وہی
ساقی، وہی بادہ، وہی مینا ہو گا
اب
اسی دُھن میں بھرے شہر کو جینا ہو گا
تجھ
سے ملنے کا بھی کوئی تو قرینہ ہو گا
اشک
در اشک تجھے ڈھونڈنے نکلیں گے لوگ
وصل
کے عہد میں فرقت کا مہینہ ہو گا
ہجر
کی رات ہے رو رو کے گزاریں گے اسے
ہر
گلی کوچے میں اجلاسِ شبینہ ہو گا
صبحِ
تقدیر جدھر چاہے گی لے جائے گی
ہم
نہیں ہوں گے، مقدّر کا سفینہ ہو گا
جم
کے رہ جائیں گی عشّاق کی نظریں اس پر
تیرے
کوچے میں جو اُمّیدکا زینہ ہو گا
تیری
ہر ایک ادا رستہ دکھائے گی ہمیں
تُو
نہیں ہو گا، ترا دیدہئ بینا ہو گا
تجھ
سے ملنے کی فقط اس کو اجازت ہو گی
جس
کے اندر نہ انا ہو گی، نہ کینہ ہو گا
جس
کی پلکوں پہ سجے ہوں گے وفا کے موتی
جس
کے سینے میں محبت کا خزینہ ہو گا
آنے
والے کے گلے لگ کے بلکنے والے!
جانے
والے نے ترا چین تو چھینا ہو گا
تیری
کرنوں کو اب اے عہد کے سچے سورج!
ہجر
کی رات کا یہ چاک بھی سینا ہو گا
شربتِ
وصل میں شامل ہے جو زہرِ فرقت
ہے
اگر عشق تو یہ زہر بھی پینا ہو گا
ارضِ
ربوہ! اسے سینے سے لگا کر رکھنا
آبگینوں
سے بھی نازک یہ دفینہ ہو گا
حسن
پھر اُترا ہے روحوں پہ سکینت بن کر
قافلہ
پھر سے رواں سوئے مدینہ ہو گا
یوں
چڑھا ہے جو نئے عہد کا سورج بن کر
خاتمِ
یار کا یہ چوتھا نگینہ ہو گا
اس
کے دربار میں جاؤں گا خطائیں لے کر
میرے
ہمراہ ندامت کا پسینہ ہو گا
کشتیء
نوح میں بیٹھے تو ہو لیکن مضطرؔ!
شرط
یہ ہے یہیں مرنا، یہیں جینا ہو گا
٩جون،١٩٨٢ء
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں