اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ190
121۔ شیشے میں جو ہو جائے سفارش کی پری بند
شیشے میں جو ہو جائے سفارش کی پری بند
پھر شہر نہ دیہات نہ پنڈی نہ مری بند
کچھ حبس بھی بڑھ جائے، اندھیرا بھی
سوا ہو
کر دینا دریچوں کو مری جان! ذری بند
اب لوگ سرِ عام لیے پھرتے ہیں شیشے
شیشہ شکنی بند ہے نَے شیشہ گری بند
منزل کی ہو خواہش تو نکل آتے ہیں رستے
نیّت ہو اگر نیک تو خشکی نہ تری بند
طرفین میں ہے اب بھی محبت کاتعلق
ہو گی نہ کبھی رسم و رہِ نامہ بری بند
ہے عشق کا آزار نہ آشوب جنوں کا
اک عقل کی آواز تھی سو تم نے کری بند
لگتا ہے کہ مضطرؔ پہ کوئی ہو گی عنایت
نکلے ہو پہن کر جو سیاست کے پری بند
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں