اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ170
103۔ شور ہونے لگا پتنگوں میں
شور ہونے لگا پتنگوں میں
روشنی بٹ گئی ہے رنگوں میں
کیسے کیسے جوان مارے گئے
حرف و صوت و صدا کی جنگوں میں
اس میں کچھ آنکھ کا قصور نہیں
رنگ ہی مل گئے ہیں رنگوں میں
رات جب روشنی قریب آئی
فاصلے بڑھ گئے پتنگوں میں
ان کو ایفائے عہد کا ہے خیال
ہے شرافت ابھی لفنگوں میں
آنکھ لڑتی، زباں جھگڑتی ہے
زندگی گھر گئی تلنگوں میں
کیا ملا تھا معاوضہ اے دل!
تُو بھی زخمی ہؤا تھا جنگوں میں
آندھیاں بھی نہ ان کو کھول سکیں
ایسی گِرہیں پڑیں پتنگوں میں
کاش اپنا شمار ہو جائے
تیری درگاہ کے ملنگوں میں
ان کو ڈر ہے کہ اب کے مضطرؔ بھی
ِگھر نہ جائے کہیں اُمنگوں میں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں