صفحات

پیر، 22 اگست، 2016

132۔ پھر کسی سوچ نے گھونگھٹ کھولا

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ207

132۔ پھر کسی سوچ نے گھونگھٹ کھولا


پھر کسی سوچ نے گھونگھٹ کھولا
دور اندھیرے میں کوئی پھر بولا

پھر وہی دھیان کی منزل آئی
روح رونے لگی، سینہ ڈولا

کچھ فرشتے تھے جو آڑے آئے
آدمی کوئی نہ ہنس کر بولا

ہم نے میزانِ عدالت دیکھی
عشق تولا گیا تولہ تولہ

یوں نہ دُھل پائے گا دل کا دامن
آنکھ کے پانی میں جا کر دھو لا

رہ گئیں دل ہی میں دل کی باتیں
زخم چلّائے نہ آنسو بولا

رات بھر روتا رہا ہے مضطرؔ
اس کو سینے سے لگا لے ڈھولا!

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں