اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ269
179۔ ذکرِ
شبنم نہ فکرِ خار کرو
ذکرِ
شبنم نہ فکرِ خار کرو
گل
کو چھوڑو، چمن سے پیار کرو
آدمی
آدمی کا دشمن ہے
آدمی
کا نہ اعتبار کرو
مفت
کی مے ہے، پی سکو تو پیو
فصلِ
گل کا نہ انتظار کرو
ہر
کوئی تم سے پیار کرتا ہے
تم
بھی پھولو! کسی سے پیار کرو
اگلی
پچھلی خطائیں کر کے معاف
شرمساروں
کو شرمسار کرو
اب
نہ آئے گا بزم میں کوئی
اب
کسی کا نہ انتظار کرو
اور
بھی لوگ ہیں زمانے میں
ذکرِ
مضطرؔ نہ بار بار کرو
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں